کتاب ک سفر 

 کتاب ک سفر 

طیبہ فاروقی 

 

 میں ایک  کتاب ہوں آج میں آپ کو اپنی کہانی سنانا چاہتی ہوں کیونکہ  میرا اور آپ کا تعلق بہت پرانا ہے۔میرے دیئے ہوئے علم کی وجہ سے انسان نے  جاہل سے مہذب کا لقب حاصل کیا، یہ کتاب ہی تھی جس نے ہر عمر ہر طبقے کو ہر طرح  کے حالات میں علم کے سمندر سے فیضیاب کیا۔

میری اہمیت اس سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ تمام مذاہب کے پاس ایک متبرک کتاب رہی ہے اور یہ بھی کہ اللہ کی آفاقی کتاب قرآن مجید کی ابتدا لفظ کتاب سے ہوتی ہے یعنی ” ذلک الکتاب لاریب فیہ “.

میرا نام لفظ ” کتب ” سے نکلا  ہے جس کے معنی چمڑے کے دو ٹکڑوں کو سی کر ایک دوسرے کے ساتھ ملا دینا‘ اور عرف میں اس کے معنی  : بعض حروف کو لکھ کر بعض دوسرے حروف کے ساتھ ملانا ہے ۔

میرے  ہونے سے پہلے انسان نے لکھنے کے عمل کے لئے پہلے کھالوں ، درختوں کی چھال اور ہڈیوں کو استعمال کیا،پھر میری زندگی  کا آغاز 105 میں کاغذ کی بدولت ہوا جسے چین نے ایجاد کیا اور پھر برسوں میں  ہاتھ کی لکھائی کے ساتھ کاغذی شکل میں  پروان چڑھتی رہی بالآخر پرنٹ میڈیا نے  مجھے ایک نیا روپ دیا اور دنیا میں پہلی بار مجھے  لکھنے کے بجائے پرنٹ کیا گیا،اس طرح  نویں صدی عیسوی میں چین میں، میں نے نیا جنم لیا۔ 

 ایک زمانہ تھا کہ لوگ مجھے کتابوں میں لگے کیڑے کی مانند چھوڑنے کا نام نہیں لیتے تھے اور نشے کی طرح ایک کے بعد ایک کتاب ختم کرتے تھے ۔ آج بھی بچہ جیسے ہی بیٹھنے کے قابل ہوتا  اسے مصروف رکھنے کے لئے  اس کا تعارف کھلونوں کے بعد  مجھ سے یعنی کتابوں سے ہوتا ہے ، میری یہ دوستی بہت پرانی ہے میں سب  کی ہر عمر کی ساتھی رہی ہوں ،شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں کتابوں کی الماری کا ایک کونا  نہ ہواور آج بھی میرے بغیر کوئی گھر مکمل نہیں ہوتا۔ 

میرے مطالعے کی عادت نے ہمیشہ انسان کی زندگی پر خوشگواراثرات مرتب کئے ہیں، معلومات میں اضافہ ، تاریخ سے آگاہی جیسے بے شمار فائدوں کے علاوہ انسان کی  نفسیات کے علاج میں مہارت رکھنے والے ماہر نفسیات اکثر میرے ساتھ وقت گزارنے کا مشورہ دیتے ہیں ، لیکن دن ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے نہ اچھا نہ برا، وقت  کروٹیں بدلتا ہے، دنیا  نے جدید ٹیکنالوجی کی طرف اپنا سفر شروع کیا تو بےشمار نئی تبدیلیوں نے اپنی جگہ بنائی جس کے اثرات مجھ پر اور مجھ سے محبت کرنے والوں پر بھی پڑے۔ 

الیکٹرونک میڈیا کے انقلاب نے  پرنٹ میڈیا پر ایسا اثر ڈالاکہ ہماری نسلوں کی بقا کا مسئلہ کھڑا ہوگیا آج میرا مقابلہ  ٹیکنالوجی کی وجہ سے پیدا ہونے والی  ڈیجیٹل کتاب سے ہے۔ اس  کے  بڑھتے ہوئے استعمال نے مجھے سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ میں ایک روایتی کتاب ہوں اور بوڑھی ہوچکی ہوں  اور میرا مقابلہ جوان ڈیجیٹل کتاب سے، تو آخرمیرا مستقبل کیا ہے؟ 

 اس اہم سوال کے جواب کے لئے میں نے  اپنے مدمقابل کو تفصیل سے جاننے کی کوشش شروع کی،اوراس کا تعارف حاصل کیا جو کہ کچھ یوں ہے ۔ 

الیکٹرانک کتاب یا ای کتاب سے مراد ایسی کتاب ہے جو کاغذ کے بجائے ڈیجیٹل شکل میں موجود ہو یعنی اسے موبائل، کمپیوٹر یا کسی دوسرے الیکٹرانک Device  کی سکرین پہ پڑھا جائے۔ 

دنیا میں پہلی الیکٹرانک کتاب  (ای کتاب) 1971میں سامنے آئی جب مائیکل ایس۔ ہارٹ نے امریکی آزادی کا اعلامیہ کمپیوٹر میں ٹائپ کیا۔ اسی نے دنیا کا سب سے بڑی ای کتاب کی ڈیجیٹل لائبریری کا منصوبہ شروع کیا جس کا نام  گٹن برگ منصوبہ ہے جس کا مقصد دوسری کتابوں کی الیکٹرانک نقول تیار کرنا تھا۔اس میں 75000 مفت ای کتابیں موجود ہیں۔ 

اس  کے بعد 1990کے  عشرے میں انٹرنیٹ کے ذریعے کاغذی کتابوں کی الیکٹرانک نقول  سامنے آنے لگیں۔

93۔1992ء میں پہلا الیکٹرانک ریڈر انسپیکٹ کے نام سے سامنے آیا۔ آج دنیا میں  سیاست، نفسیات، صحت، کھیل، ادب اور سائنس کے بےشمار موضوعات پر کاغذی کتابیں اور ڈیجیٹل کتابیں دونوں ہی موجود ہیں، جس طرح میرے لئے بڑی بڑی لائبریریز بنائی جاتی تھیں اسی طرح اب ڈیجیٹل لائبریریز بھی قائم کی جارہی ہیں، جہاں  مقامی طور پر سارا مواد جمع کیا جاتا ہے اور کمپیوٹر ، لیپ ٹاپ ،موبائل کے ذریعے کہیں سے بھی اس تک رسائی حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔

ایک مکمل ڈیجیٹل لائبریری میں آپ کو میرا وجود کہیں نظر نہیں آئے گا، اس کا مطلب مجھے اس جدید دنیا سے دور رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ، چلیں کوئی بات نہیں

 ہم دونوں کے منفی اور  مثبت پہلوؤں کا جائزہ لے کر دیکھتے ہیں کہ ہم میں سے  کس کا پلڑا بھاری ہے ؟ 

صحتمند مطالعہ 

صحت عامہ کا طبقہ کہتا ہے کہ اسکرین کی بلولائٹ آنکھوں  کے لئے تھکن اور بے چینی کا سبب بنتی ہے،گھنٹوں اسے استعمال کرنے کے سبب بینائی پر مضر اثرات پڑتے ہیں، جب کے میرا مطالعہ آنکھوں کےلئے نقصان کا سبب نہیں بنتا بلکہ ہاتھوں میں میری موجودگی ذہن پر خوشگوار اثرات ڈالتی ہے ۔

آسان رسائی

 دنیا بھر میں غریب اور دیہی علاقوں میں جدید سہولیا ت ہر سطح کے افراد  کے لئے میسر نہ ہونے کی وجہ سے ڈیجیٹل کتابوں تک رسائی ممکن نہیں لیکن شاید  مجھ  تک کچھ  آسان ہے، میرے وجود سے سجی ہوئی دوکانوں میں کمی تو واقع ہوئی ہے مگرابھی موجود ہیں اور میرا پرانا اور محفوظ خاندان  سستے داموں پر وہاں دستیاب ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ مجھ تک پہنچنے کے لئے سواری ، وقت اور پیسوں جیسے ذرائع  کا خرچہ ضروری ہوتا ہے۔

بہترین تحفہ

مجھے لوگ عرصہ دراز سے ایک دوسرے کے لئے ایک بہترین تحفے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں، کتاب کے پہلے صفحے پر چند خوبصورت الفاظ یا کوئی نصیحت لکھ کر تاریخ اور دستخط کے ساتھ دیئے جانے والا یہ تحفہ آج بھی کسی حد تک پسندیدہ تحفہ ہے ،مگر ڈیجیٹل کتاب کے ساتھ ایسا کرنا ممکن نہیں یا ہوسکتا ہے آنے والا جدید کل اسے بھی ممکن بنا دے۔

ماحولیاتی اثرات

ڈیجیٹل کتابیں ماحول دوست سمجھی جاتی ہیں،جب کے میرے لئے کاغذ کی فراہمی جنگلات کی کٹائی کا سبب بنتا ہےپھرکاغذ

بنانے کی مشینوں کا استعمال بھی، ماحول پرکچھ منفی اثرات ڈالتا ہے ۔  

انٹرنیٹ پر انحصار 

اگرچہ ڈیجیٹل کتابیں وقت کے ساتھ ساتھ  مقبول عام ہورہی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ  انٹرنیٹ یا بجلی کے بغیر ان تک رسائی ممکن نہیں ہوگی اس کے علاوہ سائبر حملے، تکنیکی خرابیاں، یا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی بندش سے قارئین کو مشکلات پیش آسکتی ہیں، لیکن اگر کاغذی کتاب ایک دفعہ آپ کی ملکیت کے بعد محفوظ ہوتی ہے تو نہ کوئی حملہ نہ بندش ، صرف ایک خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی عارضی طور لے اور کبھی واپس نہ کرے تو وہ ہمیشہ کے لئے آپ سے چھن جاتی ہے ۔

توجہ کی کمی

ڈیجیٹل کتاب  پڑھنے کی عادت قارئین کی توجہ کو مختصر اور غیر متوازن بنا سکتی ہے، کیونکہ اس  کے مطالعے کے دوران فون کی دیگر سرگرمیاں آپ کی  توجہ اور یکسوئی کو متاثر کرتی ہیں،جو گہرے اور تفصیلی مطالعے کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کی تمام تر توجہ اسی پرمرکوز  ہوتی ہے، بلکہ بیشتر اوقات دل و جان سے پڑھنے والے دنیا سے بے خبر ہوکر مجھے ختم کرکے ہی اٹھتے ہیں ۔ 

حق اشاعت 

میرے مقابلے میں ڈیجیٹل کتاب کی وجہ سے مواد کی مستندیت اور حق اشاعت کے مسائل بھی بڑھ سکتے ہیں۔اور مصنفین اور پبلشرز کو مالی نقصانات کے امکانات زیادہ ہیں۔

مواد کی نایابی 

 ابھی تک ڈیجیٹل کتابوں کا مواد دنیا بھر میں بولی جانے والی زبان انگریزی ہی میں تیار کیا جارہا ہے جس کے  باعث چھوٹی زبانیں اور ثقافتیں کمزور ہو سکتی ہیں،جب کے کاغذی کتاب کی شکل میں بے شمار زبانوں میں ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔

منتقلی آسان 

ڈیجیٹل کتابوں کا وجود جدید آلات کی وجہ سے بے وزن ہے 

کئی کتابوں کا ایک لیپ ٹاپ یا فون میں جمع کر لینا آسان اور اس بڑی تعداد کو اپنے ساتھ ہر جگہ رکھنا بے حد آسان ہے ۔

لیکن میرے ذخیرے کو گھروں ،شہروں اور ملکوں میں منتقل کرنا ایک دقت طلب کام ہے، میری منتقلی کے لئے جیب پر بھی بہت بوجھ پڑتا ہے ۔

تحریر کی رفتار 

آج کی ڈیجیٹل کتاب کی وجہ سے مصنفین اور ادیب ،شاعر اور دیگر لکھنے والے طبقے کے لئے منٹوں میں اپنی بات دنیا بھر میں پھیلانا بے حد آسان اور تیز رفتار ہوچکا ہے ،جومجھ جیسی کتاب کے ذریعے آسان نہ تھا ، لکھائی ،ترتیب ، چھپائی ، اور پھر ہر جگہ اس کی ترسیل کے مراحل کے لئے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے ۔

صفائی کی دقت 

مجھے ہمیشہ ایک بڑی تعداد میں الماریوں میں سجاکر رکھا جاتا ہے جس کے سبب مجھ پر ہر کچھ عرصے بعد گرد کی ایک تہہ جم جاتی ہے ایک ایک کتاب  کی صفائی کے لئے بہت زیادہ وقت درکار ہوتا  ہے جب کہ ڈیجیٹل کتاب ایسے کسی بھی عیب سے عاری ہے ہمیشہ چمکتی دمکتی آپ کے سامنے ظاہر ہوتی ہے ۔ 

چلیں چھوڑیں ان تمام خوبیوں اور خامیوں کو،حقیقت تو یہ  ہے کہ کتاب کسی بھی شکل میں ہو علم کے سمندر کی سیر کراتی ہے معلومات کے خزانے دیتی ہے، انسانی مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے ،اندھیرے میں روشنی کی کرن اور  تنہائی کی ساتھی ہے ۔

مورخ کہتے ہیں کہ کتابوں کے بغیر تاریخ گونگی، ادب بے بہرہ، سائنس لنگڑی اور خیالات اور سوچیں ساکت ہیں۔   

میں مانتی ہوں کہ آج میرے صفحات میں خشک پھول سکھانے کا دور تو شاید ختم ہوگیا مگر مجھے سینے سے لگانے،سرہانے رکھنے اور  اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنے والے بہت سے میرے پرستار ابھی باقی ہیں، اور وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈیجیٹل کتاب کو اپنی ضرورت اور مجھے اپنی پرانی محبت کے طور پرساتھ ساتھ لے کر چلتے رہیں گے ، اور میں تو چاہتی ہوں کہ ڈیجیٹل کتاب  میرے پرانے تاریخی ہونے کا فائدہ اٹھائے اور میں اس کے چمکتے دمکتے مستقبل کا اور ہم دونوں ایک دوسرے  کے گلے میں ہاتھ ڈالے انسان کے علم کی پیاس کو بجھاتے رہیں ۔

آخر میں ایک راز کی بات بتاؤں کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں اتنی با اعتماد کیوں ہوں ؟ 

 کیونکہ گزشتہ برسوں میں کاغذی کتاب کی شکل میں بچوں کے فکشن کا ایک مقبول سلسلہ منظر عام پر آیا جسے ہیری پوٹر سیریز کا نام دیا گیا تھا،دنیا بھر میں اس کی50 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں اور یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں اس سلسلے کی پہلی کتاب 1997ء میں جبکہ آخری 2007ء میں منظر عام پر آئی۔

اس کی مقبولیت نے یہ ثابت کیا کہ میرے مستقبل کو  ابھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اسی لئے میں کہتی ہوں 

ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں

ہم سے زمانہ ہے زمانے سے ہم نہیں