حاضر تھے تیرے دربار میں ہم

حاضر تھے تیرے دربار میں ہم
آخری قسط روبینہ فرید
مکّہ کی صبح،دوپہر ،شام اور رات سب گرم ہوتی ہےگرم موسم کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ جس وقت چاہیں نہا لیں آپ کو بغیر گیزر کے پانی گرم ملے گا۔فجر کی نماز کے بعد ہی سب لوگ جمعہ کی نماز حرم میں پڑھنے کے لیے پُر جوش تھے ،کل ہم اپنی پاکٹ ڈائری بیگ میں لے جانا بھول گئے تھے۔اس ڈائری میں ہم نے ہر اس فرد کا نام لکھ لیا تھا جس نے حرم میں اپنے لیے دعا کرنے کا کہاتھا۔رات کو بیٹھ کر فیس بک کھولی اور اس میں سے بھی ان ساری بہنوں کے نام ڈائری میں درج کیے جنہوں نے دعائوں کی درخواست کی تھی۔
یہ اللہ کی اور اللہ کے دین کی بنیاد پر کی جانے والی دوستیاں بھی کتنی پیاری ، کتنی خالص اور کتنی میٹھی ہوتی ہیں۔کبھی ان بہنوں کے ساتھ ہم نے پاکستان میں وقت گذارا تھا۔ساتھ مل کر اسلامی تحریک کی دعوت پھیلانے پر سوچا تھا،جدو جہد کی تھی۔ساتھ ساتھ تربیت گاہو ں میں ،شورائوں میں شرکت کی تھی۔ساتھ ہنسے تھے ، ساتھ روئے تھے۔آج ان میں سے کوئی دنیا کے شرق میں، کوئی غرب میں ،کوئی جنوب میں تو کوئی شمال میں لیکن سب کی سب, دل کے بہت قریب۔بیس تیس سال سے جسے نہیں بھی دیکھا وہ بھی دل کے اتنے قریب کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائوں تو خود بخود یاد آجائے۔پھر پاکستان میں موجود تحریکی بہنیں بھی ہر لمحہ میں دھیان میں ،دعا میں ساتھ ساتھ ہی رہیں۔یا اللہ ہماری ان ساری دوستیوں کو روز حشر اپنے سائے میں جگہ دینے کا ذریعہ بنا دیجئے گا۔ آمین ۔
ناشتہ کر کے ،نہا دھو کے قافلے حرم کی سمت چل پڑے ۔حرم کی وسعتیں بھی آج عاشقان حرم کے آگے تنگ لگ رہی تھیں۔یا اللہ۔ان رونقوں کو نظر نہ لگے ۔تیرا گھر ہمیشہ زائرین سے آباد رہے،اس کی رونق میں اور اضافہ ہوتا رےہے
یہی سوچتے ہوئے ہم ہجوم کے ساتھ ساتھ اوپر پہنچ گے کہ نیچے کے سب راستے تو رکاوٹوں سے بند نظر آرہے تھے۔آج طواف میں اوپر بھی بہت رش تھا ۔ہم نے طواف کے چکروں کے لیے اذکار کی ایک ترتیب متعین کر لی تھی۔پہلے چکر میں تیسرا کلمہ، دوسرے چکر میں چوتھا کلمہ، تیسرے میں درود شریف ،چوتھے میں استغفار پانچویں میں اپنے اور اولاد کے لیے دعا، چھٹے میں رشتہ داروں کے لیے اور ساتویں میں تمام احباب ، پاکستان اور امت مسلمہ کے لیے۔بسم اللہ ۔اللہ اکبر کہہ کر حجر اسود کا استلام کرنے کے بعد نیچی نظریں کر کے اذکار و دعائوں میں مصروف ہو کر چلنا شروع کرتے تو فاصلے کا احساس نہیں رہتا اور جب کانوں سے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃکیآوازیں ٹکراتیں تو ہم سوچتے کہ ” اچھا رکن یمانی آگیا۔” آج دوستوں کے لیے دعا کرتے ہوئے راحیل کی بھی یا د آئی جس نے حاضری کی درخواست پیش کرنے کا کہا تھا ۔اس کے لیے اور باقی بہنوں کے لیے بھی دعائیں کیں۔طواف کے بعد سعی کے کاریڈور میں ہی نماز کے لیے جگہ میسر آئی تو وہاں بیٹھ کر ڈائری نکالی اور ایک ایک کا نام لے کر اس کے لیے دعا رب کے حضور پیش کر دی۔کچھ دیر تلاوت قران کی ہو گی تو جمعہ کی اذان ہوئ اور امام صاحب نے خطبے میں حاجیوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد تقویٰ اختیار کرنے پر زور دیا ۔جماعت کھڑی ہوئی تو دل یہ سوچ کر تشکر کے احساس سے بھرتا رہا کہ آج اس رب نے ہمیں یہ موقع عطا کیا کہ اس مبارک دن کو اس مبارک و مقدس مقام پر گذار سکیں اور رب کے حضور سجود بجا لا سکیں۔نماز با جماعت پڑھتے ہوئے اس بات کا بھی بہت احساس ہوتا ہے کہ ہمارا دین کتنا بہترین ہے جس میں امام کے ایک اشارے پر اتنا بہترین نظم قائم ہو جا تا ہے ۔خاموشی ،یکسوئی،اکھٹا اٹھنا بیٹھنا ،رکو ع و سجود۔اگر نماز کی یہ تنظیم امت کے اجتماعی وجود پر نافذ ہو جائے تو امت عروج کے راستہ پر چل پڑے۔
حرم میں ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز کا اعلان ہوتا ہے جس کی تیاری بھی حج ٹریننگ میں کروائی جاتی ہے۔آج بھی جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی ۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو لاکھوں لوگوں کی دعا میں شریک ہو کر رب کے حضور پہنچے ۔یا اللہ ہم سب کو ایمان والی زندگی اور ایمان والی موت عطا فرمانا ۔ابھی ہم نے سنتیں پڑھ کر سلام پھیرا ہی تھا کہ میاں صاحب کو چلنے کا اشارہ کر تے ہوئے پایا۔انہیں واش روم جانا تھا لہذا ہم بھی ساتھ چلے پڑے۔حرم میں کسی ایک فریق کو واش روم جانا ہو تو دوسرا بھی ساتھ ہی جاتا ہے ۔اس میں محبت سے زیادہ مجبوری کا دخل ہے کیونکہ جب آپ ایک دفعہ مسجد سے باہر نکل جاتے ہیں تو کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اب کس جگہ سے واپس اندر داخل ہو سکیں گے؟اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کو بلاتا ہے تاکہ ان کی روح کو پاک صاف کرے۔ایسالگتا ہے جیسے حرم کی انتظامیہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو جسمانی لحاظ سے بھی اسمارٹ بنا کر بھیجنا چاہتی ہے،لہذا انہیں خوب ہی دوڑاتی ہے۔ابھی آپ جس راستے ، جس گیٹ سے اندر گئے ہیں دوبارہ وہاں سے اندر جانا چاہیں گے تو زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ
عارضی رکاوٹوں سے بند ہو گا۔وہاں متعین فورس بظاہر تو اس طرح رش کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ہمیں تو ایکسر سائز انسٹرکٹر لگتی تھی۔ان کے آگے جائو کے اشارے کا مطلب ہوتا تھا پانچ سے دس منٹ تک چلنا اور اگر وہ گیٹ بھی بند ہو تو مزیدچلنا۔پھر اند ر آکر اگر طواف کرنا ہے تو گرین لائٹ ڈھونڈنے کے لیے چلنا اور اگر نماز پڑھنی ہے تو نماز کی جگہ تلاش کرنے کے لیے چلنا ۔اگر نیچے جگہ نہیں مل رہی تو پھر اوپر کا راستہ تلاش کرنے کے لیے چلنا اور اوپر پہنچ کر پھر نماز کی جگہ تلاش کرنے کے لیے چلنا۔ان رکاوٹوں کے ساتھ اتنی فورس متعین ہوتی ہے کہ آپ اسے ہٹانے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔لاکھوں کے مجمع کو بیک وقت کنڑول کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
اس فورس کے ساتھ ہی سبز وردی پہنے خادمین کی ایک فوج آپ کو ہر وقت حرم کے اندر باہر گردش کرتی نظر آئے گی جس کی اکثریت پاکستان،بنگلہ دیش یا انڈین ہوتی ہے۔عربی فورس کے مقابلہ میں ان خادمین سے زبان شناسی کے باعث رہنمائی لینا آسان عمل تھا لہذا لوگ انہی سے راستے دریافت کرتے نظر آتے ۔
وضو کر کے آج ہم باہر ہی سے کچھ کھا کر واپس حرم میں چلے گئے۔اوپر جالیوں سے لگ کر کعبہ کو اور زائرین کعبہ کو دیکھتے رہے۔تیز دھوپ میں بھی چھتری لگائے ہزاروں افراد طواف میں مصروف تھے ۔اللہ کی ہزار رحمتیں او ر برکتیں ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ،جب آپ نے ہر ہر آزمائش میں پورا اتر کر اپنی للہیت کو ثابت کر دیا تو اللہ نے آپ کو اپنا دوست بنا لیا۔جتنی بڑی قربانیاں آپ نے دیں،آپ کو اتنے ہی کثیر اجر سے نوازا گیا۔آپ کی شان کو بلند کیا گیا۔یہودی ہوں،عیسائی ہوں یا مسلمان سب آپ کو اپنا نبی مانتے ہیں۔ہر مسلمان ہر نماز میں جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہے وہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی درود بھیجتا ہے۔آپ نے جس گھر کی تعمیر کی اور اس کی طرف بلایا چار ہزار سال سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔آپ نے اس بے آب و گیاہ وادی کے باشندوں کو رزق سے نوازے جانے کی دعا کی،آج یہاں دنیا بھر سے بہترین پھل،سبزیاں،مشروبات، ماکولات اور ہر طرح کا رزق کھنچا چلا آتا ہے۔حج کے دنوں میں وادی لاکھوں حاجیوں سے بھر جاتی ہے لیکن صرف مکہ مدینہ میں ہی نہیں بلکہ یہاں کے کسی شہر میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی کبھی کمی نہیں ہوتی۔خلیل اللہ کا لقب پانے کے بعد بھی آپ کی عاجزی کا کیا حال تھا کہ رب کے حکم پر رب کے گھر کی تعمیر کر رہے ہیں اور دعاگو ہیں کہ رب قبول فرمالے ۔کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف فرمادے۔لبیک کی خصوصیت تو دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ سے ہی سمجھ آتی ہے۔یا اللہ۔ہمیں بھی حضرت ابراہیم ؑ کی طرح کے ایمان کا کچھ حصہ عطا فرما دے ۔عصر کا وقت ہو چلا تھا،ہم پیچھے آکر نماز کا انتظار کرنے لگے ۔حرم میں آپ کہیں بھی بیٹھ جائیں ،ایسا سکون محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ماں کی گود میں بیٹھے ہیں۔آپ کو صرف اپنی ذات ،رب العالمین اور اپنی مغفرت و دیگر دعائوں کے علاوہ کچھ ایسا یاد نہیں رہتا جو آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ سکے۔یہاں کتنی بھی دیر بیٹھے رہو،تھکن تو ہو جاتی ہے لیکن دل نہیں بھرتا۔
عصر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن میں مشغول تھے کہ اچانک ایک طرف سے شور اٹھا ۔یلّہ یلّہ کی آوازیں آئیں تو دیکھا کہ صفائی کا عملہ آن پہنچا ہے۔حرم میں صفائی کا منظر بھی خوب ہے۔دس پندرہ خادمین لال رنگ کی پٹیاں لیے آموجود ہوتے ہیں ۔ایک خادم صابن والا پانی بالٹی سے فرش پر ڈالنا شروع کر دیتا ہے ۔دو تین خادمین وائپر سے اسے پھیلاتے جاتے ہیں۔ربن والے خادمین اس پوری جگہ کو ربن کے احاطے میں لے لیتے ہیں ۔ایک آدمی پانی سکھانے والی مشین کے ساتھ حاضر ہوتا ہے۔مشین چلا چلا کر اس پانی کو سکھایا جاتا ہے اور چند منٹوں میں وہ یہ عمل کر کے اگلے مقام کی صفائی کے لیے پہنچ چکے ہوتے ہیں ۔ایسے میں اگر آپ کو کہیں سے بھی یلّہ یلّہ کی آوازوں کا شور سنائی دے تو بہتری اسی میں ہے کہ فوراً جاء نماز سمیٹ کر اٹھ کھڑے ہوں ورنہ صابن کے پانی کی چھینٹیں آپ پر بھی پڑ سکتی ہیں۔حرم میں ، مطاف میں کہیں بھی کتنا بھی رش ہو ،یہ عملہ اتنی مہارت رکھتا ہے کہ ہر جگہ اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور اپنے کام کو پورے اطمینان سے انجام دے لیتا ہے
آج جب مغرب کی نماز کے لیے نیت باندھی تو عبد الرحمن سدیس صاحب کی قرات مسجد میں گونجنے لگی۔یا اللہ۔ تیرا لاکھ شکر کہ جس آواز کو برسوں سے سن رہے ہیں،آج ہمیں یہ شرف مل رہا ہے کہ ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں اور ان کی آمین کے ساتھ آمین کہنے والوں میں شامل ہیں ۔آپ کی قرات کے سوز سے دل تھا کہ پگھلا جا رہا تھا ۔عربی زبان کے زور کا اہل زبان سے قران سنتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے ۔بہترین زبان میں، بہترین انداز میں جب بہترین کلام سنایا جاتا ہے تو سیدھا دل میں اتر جاتا ہے ۔آخر کافر یونہی تھوڑی چھپ چھپ کر قران سنا کر تے تھے۔دل چاہے کہ قرات ہوتی رہے ہم سنتے رہیں،سجدے میں جائیں تو سر اٹھانے کو جی نہ چاہے،بعد میں بھی جب جب سدیس صاحب نماز پڑھاتے تھے ،خود ان پر اور نمازیوں پر گریہ طاری ہوجاتا تھا مبارک ہے وہ گریہ جو بندے کے عمل کو بہتر بنادے قلب کی زمین کو نرم کر کے اس میں نیکی کے بیجوں کی فصل پروان چڑھا دے۔
دل میں مسرت کا احساس لیے واپس ہوٹل آئے تو امامہ الیکٹر ک کیٹل میں چائے بنانے،انڈے اُبالنے کے بعد اب یخنی بنانے کا تجربہ کر رہی تھیں۔اک ہمدرد ڈاکٹر ہونے کے ناطے انھوں نے کمرے کے مکینوں کے زکام کو ابتدائی حالت میں ہی یخنی پلا کر ٹھیک کرنے کا سوچا ۔یخنی بہت مزیدار بنی، مرد وخواتین سب اس سے فیضیاب ہوئے اور امامہ کے اجر میں اضافے کی دعا کی۔
آج ہم حرم کی چھت پر پہنچ گئے دھوپ میں بھی اللہ کے بندے اس کے گھر کا طواف
کر نے میں مصروف تھے ۔ہم نے چھت سے نیچے جھانک کر دیکھا تو مطاف میں رش کم پایا،چلیں نا۔ آج ہم صحن میں طواف کرتے ہیں۔ہم نے میاں صاحب سے فرمائش کی۔حیرت انگیز بات یہ کہ وہ راضی بھی ہو گئے اور ہم کچھ دیر بعد مطاف میں موجود تھے۔میاں صاحب چھتری تانے ہوئے تھے جس سے ہم بھی مستفید ہو تے رہے اگرچہ کہ رش میں کبھی آگے پیچھے بھی ہو جاتے تھے۔دھوپ کتنی بھی تیز ہو مطاف کا فرش ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے۔یہ بھی بڑی نعمت ہے۔پسینہ تو بہہ رہا تھا لیکن مطاف میں طواف کی خوشی اپنی جگہ تھی۔ایک بار تو ایسا لگا کہ اگلے چکر میں ہم مقام ابراہیم کو دیکھ سکیں گے لیکن وہاں تک پہنچتے پہنچتے ایک ایسا ریلا آیا کہ ہم پھر سے کنارے پر پہنچ گئے ۔کعبہ یا حجر اسود کو چھونے کا تصور بھی محال تھا۔اگر ایک دو گھنٹے کاوقت دن یا رات میں مطاف میں خواتین کے لئےمخصوص کردیا جائے تووہ بھی کعبہ سے لپٹ کر دعا کرنے کی خواہش کو پورا کر لیں ورنہ تو حج کےدنوں میں یہ خواہش حسرت ہی بنی رہتی ہےاور دور دراز سے آئی ہوئی حجاج بہنیں اس حسرت کے ساتھ ہی گھر پلٹ جاتی ہیں سات چکر پورے ہوئے تو ہم آہستہ آہستہ طواف کے دائرے سے باہر ہوتے گئے اور سامنے جو گیٹ کھلا نظر آیا اس میں داخل ہو گئے ۔اندر کیا داخل ہوئے ہم تو گویا جنت میں پہنچ گئے ۔حرم کا انتہائی حسین و جمیل حصّہ ہمارے سامنے تھا۔گویا نو ر علیٰ نور کا منظر تھا ۔کشادہ راہداریاں، اونچے اونچے انتہائی دلکش مینا کاری سے مزین ستون،سفید ماربل کی دیواریں ،انتہائی دیدہ زیب آرکیٹیکچر،دیو ہیکل شاندار دروازے،عورتوں کے لیے نماز کی وسیع جگہ ،پوری تعمیر میں ایک خاص تناسب و ترتیب، لگتا تھا جیسے شاہوں کی سواری یہیں سے گذر کر کعبہ تک جاتی ہو ،عصر کی نماز کے انتظار میں سوچ ہی رہی تھی کہ ہم بھٹکے تو بہت دفعہ لیکن کبھی اس طرف آنا نہیں ہوا ،آج پتہ نہیں یہاں کیسے پہنچ گئے ؟ دل میں خود ہی جواب بھی آگیا کہ اللہ مہربان و رحیم مولا بھلا کب کسی کا ادھار رکھتا ہے ؟ اس نے اپنے ضیوف کی دھوپ میں بندگی کی مشقت کی قدر دانی کرتے ہوئے یہ جزا عطا فرمائی ہے۔آنکھوں میں نمی ٹھہر گئی اور دل رب کے حضور گویا ہو گیا۔
میں بہت ہی عاجز و بے نوا، تیرے آگے میری بساط کیا
تو کہا کرے ،میں سنا کروں ، تو دیا کرے میں لیا کروں
اس حصّے میں زیادہ تر ایشیائی ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کی خواتین نظر آرہی تھیں ۔ان کے ہوٹل سے یہی باب فتح نزدیک ہوتا ہوگا۔ہم نے برابر بیٹھی خاتون کے عبایا پر ملائشیا کا اسٹکر لگا دیکھ کرجب سلام کرنے کے بعد (آپ کیسی ہیں) پوچھا تو مسکراہٹ ان کے لب پر پھیل گئی۔الحمد للہ الحمد للہ ،وہ گویا ہوئیں۔
سانجھی اپنی خوشیا ں اور غم ایک ہیں،ہم ایک ہیں
مغرب کے بعد ہوٹل پلٹے تو کمرے کے سب ہی مکین موجود تھے اور اپنے اپنے تجربات و مشاہدات ڈسکس ہو رہے تھے۔
زیارتوں پر جانے کے لیے سب ہی بہت پُرجوش تھے،سو اگلی صبح جلدی جلدی ناشتہ و تیاری سے فارغ ہو کر سب بس میں موجود تھے۔ہماری بس کا گائیڈ پاکستانی تھا جسے کمنٹری پر عبور تھا۔حج پر آنے کی مبارکباد دیتے ہوئے اس نے آنے والوں کو خوش نصیب قرار دیا جنہیں اللہ نے اپنے گھر کر زیارت کے لیے چُنا ہے،ایک بار پھر ہم نے اس اعزاز پر رب کا شکر ادا کیا ۔سب سے پہلے وہ ہمیں غار ثور دکھانے لے گیا ،غار ثور جس پہاڑی سلسلے میں ہے وہ ڈھائی تین میل لمبا ہے ۔ہمیں کچھ فاصلے سے ہی وہ پہاڑ دکھایا گیا جس میں وہ غار ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت پناہ لی تھی،پہاڑ کے دامن میں آبادی ہے اور خالی پلاٹ پر کبوتر دانہ چُگ رہے تھے ۔اس وقت تو ہمیں وہاں پہاڑ پر کوئی نظر نہیں آیالیکن بعد میں علم ہو ا کہ اس پہاڑ کو بھی لوگوں نے اپنی ہمت کے بل پر سر کیا تھا اور غار تک گئے تھے ،چڑھنے والوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس غارکی بلندی غار حرا سے بھی زیادہ اُونچی ہے۔
ہجرت کا ذکر ہو یا سیرت کے کسی اور باب کا ،آپ ﷺ کی اسٹریجٹک پلاننگ دل موہ لیتی ہے ،سامنے کے راستہ کو چھوڑ کر وہ راہ اپنانا جو کسی کے خیال میں بھی نہ آئے ۔حضر ت ابو بکر صدیق ؓکی رفاقت پر بھی رشک آتا ہے۔عمر میں چند ماہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے ہونے کے باوجود آپ کیسے پہاڑوں پر آپ ﷺ کے ساتھ چڑھے ہوں گے۔ دنیا جب آپﷺ کےقتل کے درپے تھی اس موقع پر جان کی بازی لگا کر ساتھ کھڑے ہونا اور ہر خطرہ انگیز کر لینا ،حضرت ابو بکرصدیق ؓ کے صدق و ایمان اور عشق رسول کی دلیل تھی ،اس غار میں گزاری شب بھر کی رفاقت تو اتنی عظیم تھی کہ حضرت عمر ؓ اپنی عمر بھر کی نیکیوں کا اس سے سودا کرنا چاہتے تھے ،سلام ہو آپ پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ ۔ہمیں بھی اے رب آپ جیسے ایمان کا کچھ حصّہ عطا ہو۔
یہاں سے نکلے تو بس ہمیں حج کے مقامات دکھانے کے لیے چل پڑی۔منیٰ کی وادی کو دکھاتے ہوئے جہاں خیمے لگے نظر آ رہے تھے ،بس ہمیں عرفات کے میدان میں لے گئی ،یہاں ابھی خیمے نہیں لگے تھے ،راستہ کی طوالت کا اندازہ لگا کر ہم یہ ضرور سوچ چکے تھے کہ ہم پیدل ہوٹل سے منیٰ نہیں آسکتے جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ بسوں کا رش بہت ہوتا ہے ،ہمت ہو تو پیدل منیٰ چلے جائیں ،تیز دھوپ میں اتنا لمبا سفر طے کرنا بہت مشکل ہے۔
گائیڈ کی کمنٹری جاری تھی۔ابھی یہ راستہ جو خالی نظر آرہا ہے چند دن بعد یہاں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہو گی۔اس میدان میں یہ نیم کے درخت جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان سے لاکر لگائے گئے تھے۔اس کی مٹی سیالکوٹ سے لائی گئی تھی ۔اس کی قدر حج کے وقت پتہ چلے گی ۔حاجی سائے کے لیے ایک ایک پتے کو ڈھونڈے گا ۔سامنے ہی جبل رحمت تھا جس سے ہو کر آنے کے لیے گائیڈ نے ہمیں بیس منٹ دیے ۔بیس منٹ وہاں تک جانے ،اس پر چڑھنے اور واپس آنے کے لیے ہمیں تو بہت کم لگے لہذاہم تو وہیں کھڑے ہوکر دعائیں کرتے رہے ۔
وادی مزدلفہ ،وادی محسر اور جمرات کا مقام سب ہمیں بس میں بیٹھے بیٹھے ہی دکھائے گئے ،جمرات تک جانے کے لیے ٹرین کے اسٹیشن بھی دکھائے گئے اور پھر ہمیں جبل نور سے کچھ دور اُتارا گیا جس کی چوٹی پر غار حرا ہے۔دور سے اس پر چڑھنے والے چیونٹیوں کی ایک قطار کی مانند لگ رہے تھے ،میں اس وقت کے تصور میں گم تھی جب جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی قوم کے نازیبا طور اطوار سے بیزار ہو کر آپ ﷺ تفکر کے لیے یہاں معتکف ہوتے ہوں گے۔پھر ایک دن جب فرشتے نے آپ ﷺ کو پوری دنیا کی اصلاح کا فرض سونپے جانے کا بتایا ہوگا تو آپ ﷺ نے اپنے آپ ﷺ کو کتنا بوجھل محسوس کیا ہوگا؟کن قدموں سے آپ ﷺ غار سےنیچے اترے ہو ں گے؟ کس طرح حضرت خدیجہ ؓ تک پہنچے ہوں گے پھر حضرت خدیجہ ؓ کا تسلی دے کر آپ ﷺ کو پر سکون کرنا۔آپﷺ کا اپنے مشن کے لیے اُٹھ کھڑا ہونا ،ایک خلوت پسند نیک اور پاکیزہ اطوار والا نوجوان ایک جلوت پسند ،توانا ،پُر عزم ،پرُجوش قائد بن گیا ،سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ ﷺ پھر کبھی غار حرا میں معتکف نہیں ہو ئے۔آپ ﷺ پہاڑوں پر چڑھے تو لوگوں تک دعوت پہنچانے کے لیے کبھی صفا پر ،کبھی طائف میں ،کبھی عکاظ کے میلے میں ،کبھی دارلارقم میں تو کبھی اس جرم میں شعب ابی طالب میں مقید تو کبھی ہجرت کے سفر میں غار ثور میں قیام۔
طائف میں مقدس خوں ٹپکا،مکہ میں کبھی پتھر کھائے
بس ایک تڑپ تھی کیسی تڑپ؟ انسان ہدایت پاجائے
میں سوچ رہی تھی کہ غار حرا تک چڑھنا فرض تو نہیں،اس پر چڑھنے والوں کو کسی اجر کی بشارت بھی نہیں دی گئی لیکن لوگ اپنے نبی ﷺ کی محبت میں اس پر چڑھتے ہیں ،تیز دھوپ میں اتنی بلندی تک چڑھنا بہر حال آسان نہیں تھا،لیکن محبت رسول ﷺ میں یہ مشکل سر کرنے والے، نہ جانے بلغو اعنی ولو آیۃ کاحکم رسول ﷺ کیوں بھول جاتے ہیں ؟اگر یہاں آنے والے سب حاجی اقامت دین کی تڑپ لے کر اپنے اپنے مقام پر پلٹ جائیں اور اس فرض کو زندگی کا وظیفہ بنا لیں تو یہ امت حالت زوال سے نکل آئے ۔
بس کا سفر دوبارہ شروع ہوا تو گائیڈ نے پہاڑوں پر ایک سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ان دو عمارات کے درمیان پہاڑ کا جو حصّہ نظر آئے گا یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرنا چاہا تھا۔یہ سن کر دل کی ایک عجیب حالت ہوگئی،اس بوڑھے باپ کی عظمت کو سلام جس نے جوانی میں باپ کے سہارے کو اور بڑھاپے میں اولاد کے سہارے کو محض رضائے الہی کی خاطر قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔عظمت کی اس لازوال داستان کا صلہ ہے کہ آج تک اللہ کی راہ میں قربانی کی یہ رسم جاری و ساری ہے۔کہیں پڑھی ہوئی یہ بات بھی یاد آئی کہ”محنت تو ابراہیم ؑ بننے لیے کرنی پڑتی ہے۔اسماعیل ؑ جیسے بیٹے تو انعام میں ملا کرتے ہیں۔ “
جیسے جیسے حج کے دن قریب آ رہے تھے دل میں اشتیاق بڑھتا چلا جارہا تھا اور کبھی ایک ہیبت سی بھی طاری ہونے لگتی کہ ان مراحل سے کیسے گذریں گے ؟ جسمانی توانائی کے لیے روزانہ کیلشیم کی گولیاں بھی کھانی شروع کر دیں۔
شائستہ کمرے میں روزانہ اناوٗنس کرتی تھیں کہ ہمیں اب منیٰ جانے کے لیے بیگز تیار کر لینے چاہیں اور ہم سوچتے تھے ابھی کافی وقت ہے۔حرم آنے جانے کی مصروفیت میں ہی ٹائم گذر جا تا تھا۔اب جو جمعہ آیا تو پہلے ہی سے مشہور تھا کہ بسیں بہت دو ر اُتاریں گی ،رش بہت ہوگا ،جگہ نہیں ملے گی۔پہلی اذان کے بعد مردانہ پورشن میں سکوت تھا ہم نے ابتدائی سنتیں پڑھ کر تلاوت قرآن پاک شروع کر دی ۔دوسری اذان کے بعد خطبہ شروع ہو گیا،یہاں بھی امام صاحب نے حج پر آنے کی مبارکباد دیتے ہوئے تقویٰ کو زادِراہ بنانے پر زور دیا۔ہم نے محسوس کیا کہ سارا خطبہ آیات و احادیث پر ہی مشتمل تھا ۔بہت کم انھوں نے اپنی جانب سے کسی بات کی وضاحت کی۔نماز شروع ہوئی تو امام صاحب کی قرات بھی بہت پُرسوز تھی جس نے دلوں کو بہت ہی نرم کیا ۔ہم بعد کی سنتیں پڑھ رہے تھے جب ہم نے برابر میں بیٹھی ہوئی پاکستانی خاتون کو اس بات پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے دیکھا کہ”خواتین کو شوق بہت ہوتا ہے جمعہ کی نماز پڑھنے کا لیکن طریقہ سیکھ کر نہیں آتیں ۔”پھر انھوں نے دیگر خواتین کو نماز کا طریقہ ،خطبہ سننے کا طریقہ سکھانا شروع کر دیا۔ہم نے سوچا خواتین کو طریقہ کہاں سے آئے گا ؟ جب پاکستان میں عورتوں کو ہر جگہ جانے کی اجازت ہے سوائے مسجد کے ۔خیر اگر وہ یہ بات نرم انداز میں نماز سے پہلے ہی خواتین کو سمجھا دیتیں تو زیادہ اچھا ہوتا۔مربی کو نرمی ضرور اختیار کرنی چاہیے ،لوگوں کو شرمندہ نہیں کر نا چاہیے۔ رات کونیٹ آن کر کے اپنے میسجز دیکھے تو یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ راحیل کا میسج تھا کہ”روبینہ ۔تمھاری دعابہت جلد قبول ہوگئی ۔میں حجج فلائٹ میں بیٹھ چکی ہوں ۔”واہ۔میرے مولا واہ تیری شان ۔اپنی شان کریمی کے صدقے میری باقی دعائیں بھی اسی طرح قبول کر لینا ۔جیسے جیسے حج کے دن قریب آ رہے تھے سب کی تیاریاں بھی زور پکڑ تی جا رہی تھیں نقاب کرنے والی خواتین میں سب سے زیادہ یہ مسئلہ ڈسکس ہو رہا تھا کہ احرام میں چہرہ کھلا رکھنا ہے یا اسے کسی طرح ڈھانپنا ضروری ہے؟ اس ضمن میں ہر ایک مکتبہ فکر کا الگ ہی موقف تھا۔کسی کا کہنا تھا کہ بغیر سلے کپڑے سے چہرہ ڈھانپا جا سکتا ہے ،کسی کا کہنا تھا کہ ماسک لگایا جا سکتا ہے،کسی کو ہیٹ کے آگے لگائے جانے والا نقاب ضروری لگتا تھا اور کوئی چہرہ کھلا رکھنے کا قائل تھا ۔حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا حوالہ دیاجاتا تھا کہ کوئی گروہ قریب آتا تھا تو وہ سب خواتین چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں حالانکہ اس واقعہ سے خود یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہاں کبھی ایسا ہو تا ہو گا اور کبھی نہیں ہوتا ہو گالیکن اب تو ہر طرف آگے پیچھے دائیں بائیں سب طرف مرد ہی مرد ہوتے ہیں ۔اگر پردہ ہی لازم کرنا تھا تو پھر یہ کیوں کہا گیا کہ احرام میں کپڑا چہرے پہ نہ لگے۔یہ کیوں نہ سوچا جائے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو علم تھا کہ ایک وقت حج میں ایسا ہجوم ہو گا کہ سانس لینے کے لیے اور پہچان کے لیے عورت کو چہرہ کھلا رکھنے میں آسانی ہو گی۔ہر خاتون نے ا س ضمن میں اپنے مکتبہ فکر کے طریقے پر عمل کیا۔
آخر آہستہ آہستہ انتظامیہ نے اعلان کردیا کہ ۱۹ اگست کی رات منیٰ روانگی ہے۔نہا دھوکر،احرام باندھ کر سب ہی حج کی قبولیت اور آسانی کے لیے دعا گو تھے،رات کے کھانے اور نماز کے بعد بسوں میں بیٹھنے کا وقت آگیا۔دھڑکتے دلوں اور لب پر دعائیں لیے سب بسوں میں جا بیٹھے۔کل جن مقامات کو سنسان دیکھا تھا آج وہاں انسانوں اور بسوں کا ہجوم رواں دواں تھا۔لبیک سے فضائیں معمور تھیں ۔تقریباً ایک گھنٹہ بعد مکتب نمبر ۱۱۳کا بورڈ لگا ہوا خیمہ نظر آیا۔یہی ہماری منزل تھی۔بس سے اتار کر سب کو اس خیمہ اور راستہ کی پہچان کرائی گئی ۔زون ۵کا اوپر لگا ہوا بورڈ ہم نے ذہن نشین کر لیا۔سڑکیں تو سب ایک ہی جیسی لگ رہی تھیں۔اندر داخل ہوئے تو قناتوں سے مختلف پورشن بنے ہوئے پائے جن پر نمبر لکھے تھے۔ایک طرف عورتوں کے اور دوسری طرف مردوں کے خیمے تھے۔درمیان میں پتلی پتلی راہداریاں تھیں۔
بسم اللہ پڑھ کر خیمہ کا پردہ ہٹا کر اند ر داخل ہو گئے تو حیران رہ گئے۔ہمارا تصور تو یہ تھا کہ نیچے کارپٹ بچھا ہوگا اوربرابربرابر فوم کے گدے بچھے ہوں گے جس پرہم اپنی چادر بچھا لیں گے لیکن خیمہ تو ڈبل اسٹوری لوہے کے بیڈز سے بھرا ہو ا تھا جس پر تین فٹ چوڑے فوم کاگدّا ،تکیے سمیت موجو د تھا۔گدّے پہ چادر بھی چڑھی ہوئی تھی اور ایک اوڑھنےوالی چادر بھی ساتھ رکھی تھی۔خیمہ کو سہارا دینے والے ستونون کے اوپری حصے پر اے سی کے پوائنٹس لگے ہوئے تھے۔ابھی خیمے میں چند ہی خواتین پہنچی تھیں لہٰذا خیمہ خالی پڑا تھا۔ہمارے گروپ نے اُوپر اے سی دیکھ کر اُوپر والے بستروں پر جانے کا فیصلہ کیا ،یہ فیصلہ جو اس وقت بہت صائب لگ رہا تھا بعد میں رمی سے واپسی پر تھکن سے چور ٹانگوں کو جب اُوپر نیچے چڑھنے اُترنے کی مشق کرنی پڑی تو نیچے والے اپنے سے عقلمند نظر آئے۔
اے سی کے پوائنٹ کے نیچے موبائل چارج کرنے کے لیے کنیکشنز دیئےگئے تھے اور یہاں ایک انار سو بیماروالا معاملہ تھا ۔موبائل فونز کی قطاریں لگی ہوئی تھیں کہ یہ وہ ضرورت ہے جس کے بغیر کسی کا بھی گذارا نہیں،اس تین فٹ کے بیڈ پر ہم نے ایک بیگ اور ایک پانی کی بوتل کے ساتھ تین دن گزار کر سیکھا کہ زندگی اتنے مختصر سامان میں بھی بسر ہو جاتی ہے اور اگر خواہش کا دامن دراز کرو تو پوری دنیا بھی چھوٹی پڑ جاتی ہے۔
اگلے دن منیٰ میں مغرب کے وقت پہلے زور دار آندھی آئی جس سے خیمے کے پردے اُڑنے لگے حالانکہ یہ بہت بھاری کینوس ٹائپ کپڑے کے بنے ہوئے تھے،اُلٹ کر اوپر چھت پر چلے گئے اور کھلی جگہ سے پانی اندر آیاتو بارش کا علم ہوا ۔شروع میں لوگ خوش ہوئے لیکن آندھی اور بارش کی شدت دیکھ کر پھر سب نے یا سلامُ اور استغفار کا ورد شروع کر دیا ،اللہ نے کرم کیااور جلد ہی آندھی و بارش کا سلسلہ ختم ہو گیا ورنہ اگر خیمے زیادہ متاثر ہو جاتے تو بہت پریشانی ہوتی ۔بعد میں علم ہوا کہ آندھی سے کعبہ کا غلاف بھی اُڑ کر ایک طرف ہو گیا تھا۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے کسی تباہی سے محفوظ رکھا۔
اگست(۸ ذوالحج )کی رات عشاء کے بعد بسیں ہمیں لے کر عرفات کے لیے روانہ ہو گئیں۔حکم تو ۹ ذوالحج کی فجر کے بعدہی جانے کا ہے لیکن ہجوم کی کثرت کے باعث ایسا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔اب محض ایک پیر اشوٹ بیگ ہی ہمارے ساتھ تھا جس کا کُل اثاثہ ،ایک چٹائی ،سفری جاء نماز،چھتری،اور پانی کی بوتل پر مشتمل تھا تقریباً ایک گھنٹے بعد ہمارا قافلہ میدان عرفات پہنچ چکا تھا یہاں پر بھی کپڑے کی دیواروں اور چھتوں پر مشتمل خیمہ ہمارا مسکن تھا،جس میں چند روم کولر بھی موجود تھے،خیمے کے عقب میں واش روم خواتین کے لیے بنے تھے۔مردوں کا خیمہ ہمارے خیمے سے کچھ فاصلے پر تھا،نیچے دری پر سب اپنی چٹائیاں بچھا کر لیٹ گئے۔اللہ تعالیٰ نے بارش برسا کر موسم کی حدت کو کچھ کم کر دیا تھا ،جلد ہی سب کو نیند آگئی ۔اگلے دن ہمیں دن کے آغاز سے ہی وہ قیمتی لمحات میسر آگئے جن میں بندہ کہتا ہے ،رب سنتا ہے اور قبول کرتا ہے ،جو دعا چاہے مانگ لو ،جس کے لیے دامن پھیلانا چاہو پھیلا لو ،حاجی کے لیے خوشخبری ہے کہ اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور وہ جس کے لیے دعا کرتا ہے اس کی بھی مغفرت کردی جاتی ہے۔آہستہ آہستہ درجہ حرارت بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ وقفہ وقفہ سے لوگ حاجیوں میں پانی کی بوتلیں ،جوس کے ڈبے اور لنچ باکس تقسیم کر رہے تھے ،حج کے دوران ہر مرحلہ پر ہم نے اس میزبانی کا مزہ چکھا۔روم کولر بھی اب گرم ہوا پھینکنے لگے تھے،باہر نیم کے درختوں کے نیچے ٹھنڈک تھی۔لوگ باہر جا کر دعائوں میں مشغول ہوگئے ۔
عصر کا وقت ہو ا تو سب ہی وقوف کے لیے کھڑے ہو گئے ۔ہر ایک ایسے میں گوشئہ تنہائی کا طالب تھا جہاں وہ دل بھر کر اپنے رب سے راز و نیاز کر سکے ،گزشتہ گناہوں کی معافی کے ساتھ آئندہ ایمان کی مضبوطی اور گناہوں سے بچنے کی دعا کر سکے۔ایسے میں ہر کوئی دوسرے کا حال سے بے خبر بس اپنے ہی حال میں گم تھا،کہیں کہیں کچھ افراد بیٹھ کر اجتماعی دعا بھی کر رہے تھے،سورج کی تھالی زرد سے سرخی مائل ہونے لگی تو مناجات میں اور تیزی آگئی۔
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے؟
زندگی میں پھرنہ جانے یہ موقع ملے نہ ملے؟ جو کچھ بھی مانگنا ہے آج ہی مانگ لیں۔ہم دعائوں میں محو تھے کہ تبسم بہن نے آکر شانہ ہلایا ۔مرد باہر بلا رہے ہیں۔دست دعا سمیٹ کر باہر کی سمت قدم بڑھائے تو باہر بھی ہر ایک کو رب کے حضور ہاتھ پھیلائے ہوئے پایا ۔مغرب کا وقت ہوا تو رب کی بخشش کے وعدوں پر یقین نے گویا دل کو ہلکا پھلکا کر دیا ۔گناہوں کی معافی کے احساس نے لبوں پر مسرت کے پھول کھلا دیے۔لوگ ہلکے پھلکے ہونے کی طمانیت بھرے احساس سے سرشار تھے۔مرد سارے گروپ کو یکجا کر رہے تھے تاکہ ایک ہی بس میں سوار ہوسکیں۔بسوں نے سڑک پہ رینگنا شروع کر دیا تھا۔ بس ڈرائیور نے ہمیں مزدلفہ کے انتہائی کنارے پر اُتار دیا جہاں سے کچھ دور ہمیں منیٰ کے خیمے نظر آرہے تھے ۔وسیع میدان میں ہم سے پہلے بے شمار قافلے ڈیرے ڈال چکے تھے۔
مغرب اور عشاء کی نمازوں سے فارغ ہو کر زمین پر بچھی ہوئی کنکریوں میں سے مناسب سائز کی کنکریاں جمع کرنے کا عمل شروع کیا۔مطلوبہ تعداد سے کچھ زائد ہی کنکریاں جمع کر کے ہم نے تھیلی بند کر دی ،ساتھ لایا ہو اپانی ختم ہو چکا تھا اور اس میدان میں کہیں نل یا کولر نہیں لگے تھے۔دور ایک کنٹینر سے لوگوں کو پانی کی بوتلیں لیتے دیکھا تو میاں صاحب کو وہاں بھیجا ۔پتہ چلا وہاں بوتلیں فروخت کی جارہی ہیں۔میاں صاحب ایک بوتل لے کر آگئے۔غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہم چٹائی تو ساتھ لے آئے لیکن اوڑھنے کے لیے کوئی چادر نہیں لائے تھے ۔اب ایسے میدا ن میں جہاں ہر طرف مرد و زن موجود ہوں ،اس طرح لیٹنا بھی بہت عجیب لگ رہا تھا ۔جب بیٹھے بیٹھے بہت ہی تھکن غالب آنے لگی تو آخر کار ہم جائےنماز اوڑھ کر لیٹ گئے ،سوچا تھا آدھے گھنٹے لیٹ کر اُٹھ جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر ایسی نیند غالب کی کہ ہم چار گھنٹے سو کر اُٹھے تو دائیں بائیں کے ہمسائےبھی تبدیل ہو چکے تھے ۔میاں صاحب وضو کر کے آگئے تو ہم نے بھی آسانی کی دعا کرتے ہوئے باتھ روم جانے کا راستہ لیا۔قطاراتنی لمبی بھی نہیں تھی ۔تین چار خواتین کے بعد ہماری باری آگئی اور باتھ روم بھی ہمیں تو صاف ہی ملا۔تشکر کے احساس کے ساتھ ہم نے وضو کیا اور اپنی جگہ واپس آگئے ،سنا تھا مزدلفہ میں اندھیرا ہو تا ہے ،دور دور لائٹیں لگی ہوتی ہیں لیکن یہاں تو ہر جگہ روشنی تھی۔نماز اور تلاوت قرآن میں وقت گذرنے کا پتہ ہی نہیں چلا اور مساجد سے فجر کی اذانیں بلند ہو نے لگیں ۔دل میں سکون کی لہریں اٹھنے لگیں ،اذان کا ہر لفظ گویا دل کی زمین میں جذب ہو رہاتھا اور ہونٹ یقین کی گہرائی سے اس کا جواب دے رہے تھے۔کچھ ہی دیر میں جگہ جگہ مردوں نے جماعت بنا کر نماز پڑھنی شروع کر دی،نماز کے بعد سب وقوف کے لیے کھڑے ہو گئے۔اس رات کی سحر بھی بہت حسین تھی،گناہ دھل چکے تھے ،نئی ایمانی زندگی کی سحر دلوں کو توانائی بخش رہی تھی۔
مرکزی شاہراہ سیدھی جمرات تک جاتی تھی اور اب اس پر پُر جوش حاجیوں کے قافلے جمرات کی سمت رواں دواں تھے جن میں اکثریت افریقی ممالک کے لوگوں کی تھی۔صبح کے آٹھ بجتے ہی دھوپ بہت شدت اختیار کر گئی تھی لیکن سب مرد اور خواتین جوش سے اللہ اکبر اور لبیک اللھم لبیک کے نعرے لگاتے ہوئے رواں دواں تھے ۔ اس سڑک پر آنے کے بعد بھی ہم مزید چالیس پینتالیس منٹ چل کر اپنے خیمے تک پہنچے جہاں لوگ ابھی ناشتہ کر رہے تھے ،ہمارے گروپ کے بقیہ ممبران پہنچ چکے تھے ،ناشتہ کرنے کے بعد ہم بھی تھکن اُتارنے کے لیے لیٹ گئے۔طے یہ ہو ا کہ عصر پڑھتے ہی رمی کے لیے نکل جائیں گے۔ عصر کے بعد ہم نے چلنے کی تیاری شروع کر دی ،اب کچھ کچھ راستوں کی پہچان ہوگئی تھی۔جگہ جگہ پانی والے پنکھے شیڈمیں آویزاں ہیں جبکہ سیکورٹی والے بھی حاجیوں پراسپرے بوتل سے پانی پھینک رہے تھے ۔ابھی تو ہم بھی شیطان کو کنکریاں مارنے کے لیے پرُ جوش تھے اس لیے تیزی سے قد م بڑھاتے چلے جا رہے تھے،صبح کے مقابلہ میں اب رش کافی کم تھا ،ایک گھنٹہ کی مسافت کے بعد ہم اس پُل تک پہنچے جو ہمیں جمرات کی عمارت کے اندر لے گیا۔شیطان کے ظاہرکو ایک بڑی اونچی دیوار کی شکل دے دی گئی ہے۔آج ایک ہی شیطان کو کنکریاں مارنی تھیں،باقی دونوں شیطانوں کو کپڑے سے ڈھانپا ہو ا تھا ۔سورہ النشرح کے مستقل وِرد سے جیسے رش میں سے راستہ بنتا چلا گیا اور ہم با لکل بیرونی دیوار کے پاس پہنچ گئے اور بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ساتوں کنکریاں مار دیں جو خود شیطان سے ٹکرا کر نیچے گرتی ہوئی دیکھیں۔باہر نکل کر دعا کی کہ یا اللہ ۔اس شیطان کو ہم سے ہمیشہ کے لیے دور کر دئجیے ہمیں ہر اس وقت اس کو کنکریاں مار کر بھگانے کی توفیق دے جب یہ ہمیں بہکانے کی کوشش کرے ،
کنکریاں مارنے کا عمل تو پانچ منٹ کا تھا اب واپسی کے لیے ایک گھنٹہ چلنا تھا اب تھکن کے یہ عالم میں یہ گھنٹہ دو گھنٹہ کے برابر لگ رہا تھا بالآخر اپنے خیمہ میں پہچ گئے یہاں پینکلرز دواؤں کا استعمال زوروں پر تھا، میاں نے قربانی ہوجانے کی اطلاع دی تو ہم نے اللہ کا شکر کیا کل کے لیے بیگ تیار کر کے عشا ء پڑھ کر سو گئے اگلے دن فجر کی نماز کے بعد ناشتہ کر کے ہم بھی نکل کھڑے ہوئے مطاف لوگوں سے بھرا پڑا تھا ہم نے اوپر والی منزل پر طواف کرنے کا فیصلہ کیا طواف مکمل کر کے سعی کا اردہ کیا باب فتح سے اندر داخل ہو کر پہلے ظہر کی نماز پڑھی پھر سعی کوریڈور میں اگئےجہاں اتنا رش تھا کے سر ہی سر نظر ارہے تھے ہم نےدعا پڑھ کر اپنے قدم اندررکھ دیے حضرت ہاجرہ کی جانفشانی کی یاد تازہ ہوگئ ،اذکار وتسبیحات خاص اہنگ سے پڑھتے ہوئے گروپ وہاں سے گزرتے تو ہم بھی ہم آواز ہوجاتے یہ آوازیں آج بھی کانوں میں گونجتی ہیں سات چکر مکمل ہوئے تو ایک کونے میں کھڑے ہوکر دعائیں کیں خاص طور پر امت کے نوجوانوں کے لیے اللہ ہمارے اس قیمتی اثاثہ کو ایمان کی دولت اور امت کا درد عطا کردے اپنے گروپ سے رابطہ کیا تو وہ سب ہم کو ہوٹل کے فوڈ کورٹ میں بلا رہے تھےگروپ لیڈر نے حج کی خوشی میں سب کو دعوت دی تھی ہمارے لیے بروسٹ منگوایا گیا تو خبز کی روٹی بھی ساتھ تھی جو کی یہ روٹی انکے ہر کھانے کے ساتھ ہوتی ہے گرم گرم چائے نے تروتازہ ہونے میں کافی مدد دی پھر گروپ نے عصر کی نماز اداکی اور ٹیکسیوں کے ذریعے پھر منی روانہ ہوگے جمعرات سے کچھ پہلے ٹیکسی والے نے اتار دیا اب پھر ہم تھے اور پیدل چلنے کی مشقت سورج ڈھلنے کی شروعات تھیں اندر اتنا رش تھا ہم سوچ رہے تھے اتنی دور سے کنکریاں شیطان کو لگ بھی سکیں گی اللہ نے خصوصی رحمت کی اور ہمیں قریب جگہ مل گئی اور کنکریاں شیطانی دیوارں سے جا ٹکرائی اس عمل کے بعد واپسی کا عمل درپیش تھا میں سوچ رہی تھی کہ حج جو سب سے بڑی عبادت ہے اس میں رب اپنے بندوں کو اتنا کیوں چلاتا ہے نماز بھی مختصر روزہ بھی معاف لیکن چلنا لازم اس لازم ہونے کی حکمت کیا ہے سورہ توبہ یاد آئی جہاں اللہ نے جان ومال جنت کے عوض فروخت کرنے والوں کی صفات میں” اللہ کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے بھی” بیان ہوا ہے ،تھکن کے عالم میں قدموں کو متحرک وہی کر سکتا، اوراسی کے لیے کر سکتا ہے ،جسے وہ محبوب ترین سمجھتا ہو جیسے ماں کتنی بھی تھکی ہو،جب رات کو بچہ روتا ہے تو وہی اس کی ضرورت پوری کرنے اٹھتی ہے ،خود تھکے ہونے کے باوجود اسے لے کر ٹہلتی ہے ،تھپک تھپک کر سلاتی ہے،اس کے دل میں بچہ کے لیے موجود محبت اسے اس قربانی پہ آمادہ کرتی ہے ۔اللہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی راہ میں چلیں ،لبیک کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس کے حکم پر جہاں وہ کہے گردش کرتے رہیں تو ان کی اللہ سے محبت میں ،ان کے ایمان میں ،ان کے تعلق میں اضافہ ہوتا چلاجائے گا۔وہ یہاں سے جاکر بھی اس کے ہر حکم کے آگے لبیک کہنے والے بن جائیں گے۔
جبیں شوق جب اک بار پیش آستاں رکھ دی
قیامت تک نہیں اُٹھتی،جہاں رکھ دی وہاں رکھ دی
رات گئے مردوں کی طرف سے پیغام آیا کہ کل صبح ناشتہ کے بعد رمی کرنے جائیںگے اور وہیں سے مکّہ چلے جائیں گے۔بیگ تیار کر کے اب ہم جب مرکزی شاہراہ تک پہنچے تو ایک جم غفیر کو جمرات کی طرف رواں دواں پایا۔اکثریت صبح صبح رمی کر کے مکہ واپس جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ایک دفعہ تو دل چاہا واپس چلے جائیں لیکن اتنا چلنے کے بعد دوبارہ واپس جانا بھی آسان نہیں تھا۔اللہ سے آسانی کی دعا کر تے ہوئے چلتے گئے۔جمرات کی
عمارت میں داخل ہوئے تو وہاں بھی ہجوم کی کیفیت تھی۔سیکورٹی والے بھی اسے کنٹرول نہیں کر پارہے تھے۔یا اللہ کس طرح اس ہجوم میں سے راستہ بنا کر کنکریاں ماریں؟ اگر دور ہی سے کھڑے ہو کر ماریں تو ہماری ننھی منی کنکریاں تو شیطان سے جا کر ٹکرائیں گی بھی نہیں۔اللہ تعالیٰ سے آسانی کی دعا کرتے ہوئے نسبتاً خالی جگہ سے اس ہجوم میں گھسے اور جلدی جلدی کنکریاں ماریں۔اتنے رش میں خواتین کا کنکریاں مارنا با لکل بھی آسان اور مناسب نہیں ، ان کے لیے سہ پہر کا وقت ہی موزوں ہے جب رش کم ہو جاتا ہے ۔اس صورتحال سے ناواقفیت کے باعث یہ ہمارے گروپ کا غلط فیصلہ تھا۔
حالت سکون پا کردماغ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تو پہلی سوچ یہ آئی کہ الحمد اللہ ہم حج کے تمام مناسک پور ے کر چُکے ہیں۔یہ خیال آتے ہی دل سے دعا نکلی کہ یا رب۔ہمارا یہ حج تیرے نزدیک حج مبرور قرار پائے ۔ہمارے سب گناہ معاف ہو چکے ہوں اور اگر اس حج کے کسی مرحلے میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو رب رحیم اپنی رحمت سے اسے معاف فرما دینا۔آمین