نئی صبح پر نظر ہے  

نئی صبح پر نظر ہے

 انسانی معاشرہ ایک گلدستے کی مانند ہے جس طرح ایک گلدستے میں مختلف رنگ وقسم کے پھول حسن وخوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں کا معاشرہ بھی مختلف خیال ، مذہب ، نسل ، کے افراد سے ملکر وجود میں آتا ہے اور یہی اسکی خوبصورتی کا سبب ہے جس میں میانہ روی ، تحمل مزاجی  ، رواداری، عفودرگزر ایک دوسرے کو برداشت ومعاف کرنا،دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں شامل ہونایہ وہ خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے  معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ  بنتا ہےاور جن معاشروں میں ان خوبیوں کی کمی ہوتی ہیں وہاں بےچینی،شدت،غصہ اور بہت سی دوسری خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں،  معاشرہ گھروں سے بنتا ہے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ گھروں میں رہنے والوں کے روئیے ایک دوسرے کے ساتھ خراب ہیں اور یہی خراب رویئے ہمیں گھروں،  سڑکوں ،بازاروں ، تعلیمی اداروں،  دفتروں میں  دیکھنے کو ملتے  ہیں  جہاں کوئ کسی کو سننے اور  برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ ہم میں دوسروں کے نقطہ نظر کو سننے اور برداشت کرنے کی روایت ختم ہوچکی ہے، ہم نےاپنے روئیے، نظریے ،مشورے  کو سب سے اہم سمجھتے ہیں ہم دوسروں کی اوّل تو  سنتے ہی نہیں اور اگر دل بڑا کرکےسن بھی لیا تو اس پر اتنی تنقید کہ جو کچھ بھی کہا گیایا جو مشورہ دیا گیا وہ تو سراسر غلط ہے یا اس میں اتنی مشکلات ہیں کہ بہتر ہے کہ نہ کیا جاۓاس طرح ہم نے بڑی خوبصورتی سے سامنے والی کی بات کو وہیں ختم کردیا کہ آئندہ وہ سوچے بھی نہ کہ کوئ مشورہ یا بات اپنی سب کے سامنے رکھ سکے   بلکہ ہماری دلی خواہش ہوتی ہے کہ ہم اپنی مرضی  اور سوچ کو  دوسروں پر مسلط کردیں ۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر  اللّہ تعالیٰ کویہ اختیار کسی کو دینا ہوتا تو وہ ہر انسان کو عقل وَ شعور اور غوروفکر کی دعوت نہ دیتا اللّہ تعالی تمام کائنات کا مالک ہے مگر اس  نے انسان  پر کوئ چیز مسلط نہیں کی بلکہ اسے سمجھنے اور سمجھ کر صحیح وغلط کا فرق معلوم کرنے کی دعوت فکر دی اگر کسی نے غلط راستہ اختیار کیا تواسکو توبہ کا راستہ بھی  دکھادیا پھر ہم انسان ہو کر کیوں یہ خواہش کرتے ہیں کہ ہم  دوسروں پر اپنی خواہش و نظریات مسلط کردیں ، ایسے میں ہم خود سے سوال کریں کہ کیا ہم اپنے معاشرے کو صحت مند معاشرہ کہہ سکتے ہیں ؟کیا ہم شر میں سے  خیر کا پہلو نکالتے ہیں؟  کیا ہم تنقید میں تعمیر کے عنصر تلاش کرتے ہیں ؟ کیا ہم اختلاف کو خندہ پیشانی سے لیتے ہیں ؟ نہیں کیونکہ ہم یہ حوصلہ ہی نہیں کہ ہم یہ سب کر سکیں اسلئے ہم  وہ قوم ہیں جنہیں اخلاقی تربیت کی شدید ضرورت ہے ہم میں معمولی سی باتوں پر اختلاف ہوجاتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اختلاف رائے انسانی زندگی کا حصہ ہے اختلاف ایک فطری نعمت ہے بقول ذوق

  گُلہاۓ   رنگارنگ  سے   ہے    زینت   چمن

 اے ذوق ! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اختلاف کو ایک نعمت سمجھ کر قبول کیا جاتا  مگر اسی اختلاف کو نہ سمجھنے سے ان سے مسائل اور  تنازعات  پیداہوجاتے ہیں کیونکہ  ہم ایک دوسرے کے اختلافات کو قبول ہی نہیں کرتے اور پھر یہی رویئے ہمیں اختلاف کو سمجھنے اور  برداشت کرنے کے بجاۓ باہمی کشمکش کی طرف لے جاتے ہے،اس باہمی کشمکش میں  وہ افراد بھی شامل ہیں جنکے ہاتھوں میں اعلیٰ تعلیمی  ڈگریاں بھی ہیں  مگر وہ بھی بنیادی اخلاقیات سے بہت دور ہیں،انسانی معاشرے میں خرابی کا یہ پودا خودبخود نہیں اُگتا بلکہ یہ بعض انسانوں کی اپنی غلطی کی وجہ سے یہ  وجود میں آتا ہےاور پھر یہی پودادوسروں  کا حق چھینا،حق پر ہونے کے باوجود انصاف فراہم نہ کرنا ، انا اور میں کی وجہ سے ایک   تناور درخت بن جاتا ہے۔ جس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں پھیل کر اسے تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں اور یہی وجہ ہے کہ انسانیت کا احترام بھی انتہائ محدود ہو کر رہ گیا ہے،عدم برداشت کا عالم یہ ہے  کہ مشکل اور آزمائش میں اللّہ کے سامنے  صبرو شکر کے بجاۓ ایک طویل  شکووں کی فہرست لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں،ایک طرف خالق کائنات سے شکوہ تو دوسری طرف اسکی مخلوق سے بھی تعلقات خراب ہیں  ہماری سوسائٹی کس سمت میں جارہی ہے  آخر وہ صبح کب طلوع ہوگی جب ہم ایک مہذب معاشرے کی طرح ترقی کرتے ہوۓ اپنی منزل کو پہنچیں گے مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہم مہذب معاشروں کی دوسری باتیں تو بہت جلدی نقل کر لیتے ہیں مگر اخلاق ،تمیز ،برداشت  ، راواداری کی نقل نہیں کرتے جبکہ ہمارا دین ہمیں رواداری ،فراخدلی ،انصاف کا درس دیتاہے اور اسکے ساتھ دوسروں سے محبت  احترام  برداشت کرنا بھی سکھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید ہر معاملے میں انصاف سے کام لینے ،عفودرگزر ،برداشت اور تحمل کا درس دیتا ہے وہ اپنا یہ پیغام مختلف انداز سے دہراتا ہے اس طرح وہ ایک ایسی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے جو اسلام کی پہچان ہو اور عملی طور پر ہر اعتبار سے پوری انسانیت کے لئے پیغام سلامتی ہو۔

قرآن مجید میں اللّہ تعالیٰ فرماتے ہیں

    پس اللّہ کی بڑی رحمت ہی کی وجہ سے آپ انکے لئے نرم گو ہیں اور اگر آپ بد خلق اور سخت دل ہوتے تو یقینا وہ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے سو آپ انہیں  معاف کردیں اور انکے لئے بخشش مانگیں اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں،پھرجب آپ پختہ ارادہ کر لیں تو اللّہ تعالی پر بھروسہ کریں بلاشبہ اللّہ تعالیٰ بھروسہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے”(سورہ آل عمران #159)

قرآن  کے احکامات کو نبی کریم صلی اللّہ علیہ والہ وسلم نے خود عمل کرکے دکھایا۔آپ نے ہمیشہ حلم وبردباری سےباہمی حقوق کا احترام کیا۔ برداشت،عفودرگزر ،نرمی وشفقت ،انصاف کی تعلیم دی۔ نبوت کے فرض منصبی کو باحسن و خوبی سے انجام دیتے ہوۓ ایسی رواداری اور فراخدلی دیکھائی جو انسانی تاریخ کی بہت روشن اور تابناک مثال ہے کفار مشرکین نے ہر طرح سے آپ کو تکلیفیں پہنچائیں مگر آپ نے سب کو نہایت صبر و تحمل اور بردباری سے برداشت کیا۔

آپ نے فرمایا ساری مخلوق اللّہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اسکے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ انسان وہ ہے جو اسکے کنبہ کے ساتھ نیکی اور اچھا برتاؤ کرے، آپ کی تعلیم یہی تھی کہ ایک دوسرے سے تعلقات ختم نہ کئے جائیں اور نہ ہی بغض ،حسد وکینہ رکھا جاۓ، بلکہ سب کو اللّہ کے نیک بندے بن کر رہنا چاہیے ،

حضرت ابوہریرہ رضی اللّہ سے روایت ہےکہ ایک شخص نے رسول اللّہ سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئ وصیت فرمائیں  آپ نے فرمایا غصہ مت کیا کرو اس شخص نے پھر اپنی وہی درخواست کئ بار دہرائ کہ آپ مجھے وصیت فرمائیں مگر نبی کریم صلی اللّہ علیہ والہ وسلم نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہغصہ مت کیا کرو”  (بخاری

اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کریں تو ہماری زندگیوں میں انقلاب آجاۓ ، اگر ہم اجتماعی سطح پر اس کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں اس بات کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی ہوگی ،ہم خود اپنے روزانہ کے معاملات میں تبدیلیاں پیدا کریں اور ان پر سختی سے عمل بھی کریں، بحیثیت انسان ہمیں اپنے آپ سے اتنی محبت ہونی چاہیے کہ ہم خود کو جہنم سے نکال کر جنّت کی طرف لے جائیں ۔

 ہمارے کرنے کے کام 

  اپنے گھر والوں کو وقت دیں، دوسروں کو سننے کی عادت ڈالیں ، طنزیہ گفتگونہ کریں اور نہ ہی اسکا جواب اسی انداز سے دیں بلکہ اسکا جواب ایک مسکراہٹ سے دیں، اپنے مزاج، معمولات ،گفتگو میں نرمی،خوش مزاجی ،عاجزی وصبر کو اختیار کریں، بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں تعلیم کو فروغ دیں اور جہاں تک ہوسکے لوگوں میں انصاف کریں   

 دوسروں کی راۓ کا احترام کریں۔  بحث ومباحثہ اور بے جا تنقید کے بجاۓ فراخدلی کے رویئےکا مظاہرہ کریں اگر کسی بات پر کسی کو قائل کرنا ہے تو رعب چیخ چلاہٹ کے بجاۓ دلائل سے جواب دیں، غلط سے غلط انسان کے لئے بھی اصلاح کا واحد راستہ محبت ہے تنقید اور تلخی چاہے کتنی ہی حق پر کیوں نہ ہو وہ اصلاح کا بہتر راستہ نہیں ہوتی

ہم سیرت النبی صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کا مطالعہ کریں کہ کیسے ہمارے پیارے رسول اپنے دشمنوں اور دوستوں کے ساتھ برتاؤ کیا کرتے تھےآپ صلی اللّہ علیہ والہ وسلم نے دشمنوں کو اخلاق کے اسلحہ سے فتح کیا

   آپکی تعلیمات نے جہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے حقوق کی  پاسداری کی وہیں آپ نے غیر مسلموں کو ایک قومیت کی لڑی میں پرو دیامعاہدین کی یہ بستی  (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کے لئے امن کا گہوارہ بن گی۔

         آپ کی دی ہوئ تربیت کا اثر صحابہ اکرام کی زندگیوں میں نظر آتا تھا کہ وہ کس طرح مثبت اور منفی پہلوؤں کو جانچتے اور اسکے بعد کوئ نتیجہ اخذ کرتے تھے،یہ بات ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارا دین  اخلاق کی بنیاد پر پھیلا اسلئے بحیثت امت مسلمہ ہم اپنے پیارے رسول صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کریں تو یقینا ہماری سوچ، روئیے اور

  نظریات میں تبدیلی ہوگی گوکہ اس سارے عمل میں ہمیں  بہت وقت درکار ہوگا لیکن  ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ  کوئ بھی تبدیلی جادو کے چراغ سے نہیں آتی اسکے لئے صبر اور مستقل مزاجی شرط ہے اور پھر اسکا نتیجہ یقینی ہے

شاہ عبدالطیف بھٹائ نے کیا خوب کہا ہے  چلو جولاہوں کے پاس جاتے ہیں جن کی محبّت میں نفاست ہےکیونکہ وہ سارا دن دھاگوں کو جوڑتے ہیں توڑنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں ۔                                                   

اسلئے مایوسی کے بجاۓ اُمید کی نئی صبح  کے ساتھ اس پر کام کریں کیونکہ اُسی صبح پر ہم سب کی نظر ہے اور اسی میں ہم سب کی فلاح و ترقی کا راز پنہاں  ہے ۔ اس دعا کے ساتھ اللّہ تعالیٰ نئے دن کا سورج ہمارے لئے نئی صبح وامنگ کے ساتھ طلوع فرما دے آمین ۔

                                        ریشماں یاسین    کینیڈا