تلمیز برنی ڈیلس
پہچان، شناخت ،تشخص موجودہ دور میں یہ الفاظ اصطلاح کی شکل اختیار کر چکے ہیں کیونکہ یہ ہر سوچنے والے ذہن کو چند بنیادی سوالوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں ،
آخر یہ پہچان ہے کیا؟ کیا انسان کو اسکی واقعی ضرورت ہے؟ کیا نام پہچان کے لئیے کافی نہی؟
اگر انسان کو پہچان کی واقعی ضرورت ہے تو اسکی نوعیت کیا ہے؟
حالانکہ پہچان یا شناخت کا سوال مغرب کے فلسفے میں تقریباً پانچ صدی قبل اٹھایا گیا تھا جب یورپ علم اور سائنس کے ہر میدان میں قدم جما رہا تھا۔
دیکھا جائے تو قرآن نے اس سوال کا جواب بہ تمام وکمال دیا ہے۔
مثلا جب حضرت آدم و حوا کی تخلیق ہوئی توان کو نام دیا اور ان کو بندہ اور نائب ہونے کا اسٹیٹس (status ) دیا گیا۔
(سورہ البقرہ) حضرت آدم علیہ اسلام کو چیزوں یااشیاء کے نام سیکھائے گئے تاکہ وہ علم سے بہرہ مند ہوں۔
دوسری مثال حضرت عیسی علیہ اسلام کی ہےجس کے پہلے الفاظ ہی یہ ہیں کہ “میں اللہ کا بندہ ہوں “(سورہ مریم)، ان دونوں مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پہچان کا شعور اللہ کا ودیعت کردہ ہے یعنی انسان اس شعور کے ساتھ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کوئی وجود ہے جسکا کوئی نام ہے یا ہونا چاہیے۔
قرآن نے دوسرے مقامات پر امتیاز رنگ و نسل کو بھی پہچان کی وجہ قرار دیا ہے، لیکن نام اور رنگ و نسل محض اولین یا بنیادی پہچان کی حیثیت رکھتے ہیں اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کی پہچان دنیا اور آخرت میں اسکی حیثیت کا تعین کرے یہ پہچان انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی مثلا سورہ رحمٰن میں اے گروہ جن و انس یا متعدد مقامات پر اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، یا سورہ الفتح کی آیت میں رسول اللہ صلّی علیہ وسلم کے رفقاء جو آپس میں نرم ہیں یہ سب پہچان جائیں، انسان کی حیثیت اور ذمے لگائے ہوئے کاموں یا فرائض کا تعین کرتی ہے۔
پہچان کی انفرادی حیثیت جیسے کہ نام اور شکل و صورت اور اجتماعی حیثیت کا ذکر اوپر اس لئے کیا گیا ہے کہ مغرب میں پہچان کے سوال کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی شناخت کا مسلہءبھی اٹھایا گیا تھا اسکی وجہ یہ بھی ہے کہ پہلی بار فرد کو معاشرے سے ہٹ کر یا بالاتر ہو کر دیکھنے کی کوشش کی گئی تھی۔
جہاں تک پہچان کے شعور کا تعلق ہے تو اس کا واضح ہونا بہت ضروری ہے خصوصاًموجودہ دور میں ۔
حضرت علی رضی اللہ نے فرمایافرمایا جس نے اپنے آپ کو پہچانا گویااس نے اپنے رب کو پہچانا، حضرت علی کا یہ قول میرے اس بیان کی تصدیق کرتا ہے پہچان کا احساس لیکر ہر انسان پیدا تو ضرور ہوتا ہے لیکن احساس کو شعور میں ڈھالنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے جتنا زیادہ یہ شعور واضح ہوگا اتنا ہی انسان کو اپنا نصب العین صاف نظر آئے گا۔
آخری بات یہ ہے کہ پہچان کے اس شعور کو نئی نسل کے ذہنوں میں اُجا گر کرنا اور اس تصور کو واضح کرنا کہ ہمارے بچے کون ہیں اور انکی انفرادی اور اجتماعی پہچان کیا ہےبہت ضروری ہے ورنہ ہماری آئندہ نسلیں ایک گم کردہ راہ گردہ بن جائیں گی،
جو اپنے آپ کو ہی نہی پہچانے گی یہ بات امریکی معاشرے کے تناظر میں اس لیئے بھی اہم ہے کہ یہاں مذہبی اور خاص طور پر معاشرتی پہچان کھو دینے کا بہت قوی امکان ہے کیونکہ سارا معاشرہ ، میڈیا اور تعلیمی ادارے نئی نسل کو اپنی طرف با آسانی راغب کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور یہ طاقت والدین اور وسائلِ والدین اور کمیونٹی سے کہیں زیادہ ہے ، لہذا بہت چھوٹی عمر سے بچے کو یہ بات بتانا ضروری ہے کہ وہ کون ہے اور دنیا میں اسکےآنے کا مقصد کیا ہے کھیل کود اور فن نہیں ہے بلکہ ایک خاص مقصد کے لئے وہ دنیا میں بھیجا گیا ہے بچوں کو بچپن سے ہی یہ بتانا کہ وہ کس معاشرہ سے کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے والدین کے لیئے بہت ضروری ہے ،اس معاملے میں محض مذہبی تقریبات اور مواقع کا سہارا کافی نہیں ہے، بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی ایسے مواقع فراہم کرنا والدین کی ذمہ داری ہے جس سے انہیں مذہب اور معاشرے دونوں سے تعلق محسوس ہو کیونکہ چھوٹی عمر میں بنایا گیا تعلق عموماً وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا ہے ۔مثلا بچوں کے لئیے ایسی محافل کا انتظام کریں جو آپکے معاشرت سے بھی تعلق رکھتی ہوں مثلا حمد و نعت کی محفلیں یوم آذادی کے پروگرام خود منائیں اور بچوں سے اپنی مذہبی اور قومی شناخت کے حوالے سے پروجیکٹ بنوائیں مسلمان اور پاکستانی ہیروز کے بارے میں بتائیں اور بچوں کے ساتھ اس طرح کے پروجیکٹ میں خود بھی حصہ لیں
الحمد اللہ اکنا نے اس مقصد کے لئیے MCNA (Muslim children of America کا اہتمام کیا ہے جہاں بچوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ امریکہ میں رہتے ہوئے اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ ایک بہتر اور فعال شہری ہونے کی تربیت دی جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو اس طرح کے پروگرام میں لیکر جائیں اور اپنے گھروں میں بھی ایسی activities کا ااہتمامُ کریں ۔
یاد رکھیں شناخت کا تصور اور شعور پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری اسکے لئیے اپنے مذہب سے جڑنا ضروری ہے تاکہ بچہ اپنی مذہبی شناخت کو برقرار رکھ سکے اور اس سوال کا جواب پوری خود اعتمادی سے دے سکے کہ وہ کون ہے ۔
اپنی زمین یا خطِہ زمین سے جڑنا اس لئیے ضروری ہے کہ ہم امریکہ میں رہتے ہوئے بھی اپنا قومی تشخص برقرار رکھ سکیں اس لئیے بچوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے خطے کی تاریخ کیا ہے، اور دنیا میں ہر شخص اور گروہ کو اپنی روایات اور تاریخ سے جڑنے اور انہیں کھوجنے کا حق ہے، یہ بات ان بچوں اور نوجوانوں کو بتانا بہت ضروری ہے جو اپنے تشخص کے معاملے میں سوالات اٹھاتے ہیں اور اکثر اس معاملے میں پریشان ہی رہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں یا پاکستانی، تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہر نسلی یا قومی گروہ نے اپنی تاریخ ، اپنی روایات اور اپنی جڑوں کو کھوجا ہے اور اس پر انہیں فخر بھی ہے اسکی سب سے بڑی مثال افریقیی احیاء کی تحریک تھی جو 1930 کی دھائی سے شروع ہوئی اور آج اس پر ہزاروں کتب، مضامین اور ناول لکھے جا چکے ہیں اور اس موضوع پر فلمیں بھی بن چکی ہیں حالانکہ یہ اس نسلی گروہ کا ذکر ہے کہ جس کی اکثریت نے عیسائی مذہب بھی اختیار کرلیا تھا اس کے باوجود بھی انہیں اپنی قومی تشخص کی تلاش رہی، لہذا ہماری نئی نسل کو بھی اسی طرح اپنی قومی اور مذہبی شناخت سے جڑ نے کی ضرورت ہے لیکن اسکا یہ مطلب ہرگز نہی ہے کہ ہم اپنی مذہبی شناخت سے دست بردار ہو جائیں نہیں قومی شناخت کو مذہبی شناخت کا پابند رکھنا ضروری ہے
کیونکہ معاشرہ پاکستان کا ہو یا ہندوستان کا اسکا کلچر ابھی بھی ان چند قدروں کا پاس رکھتا ہے جو ہمارے مذہب کا حصہ ہیں مختصر یہ کہ کلچر کو مذہب سے قریب لانے میں بہتر طور سے استعمال کیا جاسکتا ہے تاکہ نوجوان نسل مذہب اور کلچر کےرشتے میں ربط تلاش کرسکے