عقیدے سے جڑی شناخت

عقیدے سے جڑی شناخت

افشاں نوید ۔ ۔کیلیفورنیا

 

بحثیت مسلمان ہماری شناخت ایمان سے جڑی ہوئی ہے۔۔

 

آج کی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں ، رجحانات ، نظریات اور اثرات کے بھنور میں پھنس جانا آسان ہے۔

 

ایک ایسا وقت جب شناخت کا مصنوعی بحران پیدا کیا جارہا ہے۔۔۔

کتنی عجیب بات ہے کہ آپ اسکول کے کسی بچے کو کہیں کہ تم لڑکا ہو یا لڑکی یہ فیصلہ کرنے کے لیے  اپنی حرکات وسکنات پر نظر رکھو۔۔۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تمہارے جسم میں معاذ اللہ روح غلط ڈال دی گئی ہو۔۔

تمہارا پوسچر لڑکوں والا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم لڑکا ہی ہو۔۔۔ 

اگر تم لڑکی ہو تو ضروری نہیں ہے کہ تم حقیقت میں لڑکی ہی ہو۔ تمہارے جسم میں کسی لڑکے کی روح ہے تو برملا اس کا اعتراف کرو۔۔

  ہم دیکھ رہے ہیں مغربی ملکوں اور انڈیا کے  ٹی وی چینلز پر ان لوگوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اپنی جنس تبدیل کرا رہے ہیں۔

مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں مسلسل ان چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ہمارے ایمان ، اپنی اقدار اور اپنی شناخت کی جانچ کرتے ہیں۔

  غیر یقینی صورتحال کے ان لمحوں میں خاص طور پر ہمیں اپنی اسلامی احکامات کی طاقت کی طرف راغب ہونا ہوگا۔

 اس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ غیر اسلامی ملکوں میں ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں ہمارے بچے کا تعلیمی ادارہ اس کو کیا سکھا رہا ہے؟

  وہ دوستوں کے کس سرکل میں رہتا ہے۔۔۔ دوست بچے کے اوپر بہت اثر انداز ہوتے ہیں، اللہ کے نبیﷺ نے تو یہاں تک فرمایا کہ ایک شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔۔ اس لیے اپنے بچوں کے دوستوں کے کہ والدین سے بھی ہماری شناسائی ہونا چاہیے کہ وہ کہیں ہمارے بچے کی نظریات پر غلط طریقے سے اثر انداز تو نہیں ہو رہے۔۔

 اپنے عقائد پر”مضبوط کھڑے” ہونے کا تصور صرف لچک کے بارے میں نہیں ہے۔ ہمارے رویے میں بلا شبہ لچک ہونا چاہیے لیکن عقائد کے معاملے میں ہم کیسے لچک دکھا سکتے ہیں، یہ تو سب سے بڑا چیلنج تھا جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شدید ترین مخالفتوں کا سامنا تھا تو بار بار آپﷺ کے سامنے یہ پیکج آتے تھے کہ کچھ تم ہمارا دین قبول کر لو کچھ ہم تمہارے دین پر عمل کر لیں۔۔ کیونکہ کچھ بھلائی تو ہمارے طریقوں، ہماری اقدار میں بھی ہے۔۔ تم ایک دم نیا دین کیوں لے آئے  ہو؟ لیکن اس وقت کسی   بھی مکس پلیٹ کو سختی سے رد کر دیا گیا یہ کہہ کر کے لکم دینکم ولی دین اور الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لک  اللہ اسلام دینا۔۔۔ 

 

دین مکمل ،عقائد مکمل،نظریات مکمل۔ 

 لیکن اس اتمام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دوسروں کو اپنے سے کم تر سمجھیں یا ان کے انسانی حقوق کی پرواہ نہ کریں۔۔۔ اسلام اعلی ترین سطح پر اقلیتوں کے حقوق کی بات بھی کرتا ہے اور اگر کہیں ہم اقلیت میں ہیں تو اکثریت کے حقوق کا تحفظ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔۔ کیونکہ انسانیت کے درجے میں ہم کسی کے حقوق تلف نہیں کر سکتے عزت اکرام اور محبت لازمی ہے لیکن اپنے عقائد اور نظریات پر کمپرومائز کیسے کیا جا سکتا ہے۔۔

 کتنی سادہ سی بات ہے کہ غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا 60 ہزار لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن آج بھی وہ یہ ماننے پر تیار نہیں کہ فلسطین کے اوپر یہودیوں کا کوئی حق ہے۔ وہ بظاہر تعداد میں ختم ہو رہے ہیں لیکن وہ اپنے اس عقیدے پہ جمے ہوئے ہیں کہ یہ انبیاءؑ کی سرزمین مسلمانوں کا حق ہے۔۔

 اس کو کہتے ہیں اپنے عقیدے پر مضبوطی سے جمنا۔

یہ یقین ہمارے عقیدے اوراٹل عزم کے بارے میں ہے۔

 یہ ہماری اسلامی اقدار کو اس بنیاد کے طور پر قبول کرنے کے بارے میں ہے جس پر ہم اپنی زندگی گزارتےہیں۔

 جب ہم اپنے عقیدے میں مضبوط کھڑے ہوتے ہیں تو ہم صرف اپنے عقائد کا دفاع نہیں کرتے ہیں۔ ہم ان کو زندہ کر رہے ہوتے ہیں۔ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں کیوں رہیں؟

ہمارے پروایکٹو ایجنڈے ہونے چاھیے جو ہماری اقداروروایات ہیں۔۔ہم خاموش بھی ہوتے ہیں تو مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ہمارا کردار ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمارے پڑوسی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پڑوسی ایک مسلمان ہے جو جھگڑالو نہیں بلکہ اعلی ظرف ہے۔جو مسکراتےچہرے سے ملتا ہے اور ہمدردی رکھتا ہے۔۔

ایسی دنیا میں جہاں شناخت تیزی سے سیال اور قابل عمل ہے اسلام کے لازوال اصولوں میں خود کو مربوط کرکے رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ 

ہمارا ایمان ہمیں ہمدرد ، منصفانہ اور شائستہ رہنے کا درس دیتا ہے۔ 

یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری اصل طاقت ہماری انفرادی برتری میں نہیں ہے۔ ہمارا اچھا گھر اور ڈگری کسی کو کیوں متاثر کرسکتی ہے۔ وہ تو صرف ہمارا کردار ہے۔ جو ہمارے عقیدے کا عکاس ہے۔ 

ہم جس دین کے پیروکار ہیں وہ تو میت تک کے احترام کامتقاضی ہے کہ میت کوآہستہ قدموں سے لے کر چلیں اور  قبر کے مردوں تک کے احترام کا حکم دیتا ہے کہ قبرستان سے گزریں تو سلام کرکے گزریں۔۔۔

 

ہمارا اجتماعی کردار بہت اہم ہے۔۔

جب ہم جدید زندگی کی پیچید گیوں کی نشان دہی کرتے ہیں تو ہمیں ان قوتوں کے خلاف چوکس رہنا چاہئے جو ہمارے عقیدے کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔

عقیدہ کوئی نظرآنے یا تولی جانے والی چیز نہیں لیکن یہ کسی ترازو کے پلڑوں میں نہ تلنے کے باوجود بہت بھاری ہے۔

ہمارا عقیدہ ہی زندگی ہے۔ ایک مکمل شریعت۔ جامع نظام زندگی۔              

 ہمیں اپنی اقدار سے سمجھوتہ کرنے کے بجائے اپنے عقائد کی مضبوطی کے لیے سوچنا چاہیے۔

یہ بیرون سے زیادہ اندرونی توجہ چاہتا ہے یہاں اداروں کا کردار اہم ہے لیکن فرد کے لیے اس کے گھر کی تربیت اہم ترین ہے۔ 

ہمیں اسلام کے اصولوں سے وابستگی میں مضبوط کھڑا ہونا چاہئے۔

 دوسروں کی گڈ بک میں آنے یا غیر اسلامی معاشروں میں اپنے قدم مضبوط جمانے کے لیے ہم اپنے اسلامی اصولوں سے انحراف نہیں کر سکتے اور لچکدار رویے نہیں اپنا سکتے۔

 

یہ آسان نہیں ہماری نسلوں کی بقا کے لیے ایسے وقت بھی آئیں گے جب ہمارا امتحان ہوگا 

جب ہمارا عقیدہ ہم سے قربانی مانگے گا۔ایسے میں دنیا کی طرف جھک جانا وھن لگنے کے مترادف ہوگا۔

قرآن وحدیث ہمارے مضبوط کردار کی بنیاد رکھتے ہیں ایسے عقائد کے لیے جینا سکھاتے ہیں، پورا ضابطہ حیات ہمارے حوالے کرتے ہیں کہ کہیں ہمیں ٹھوکریں نہ کھانا پڑے۔

 یا جنگلوں میں راستہ نہ تلاش کرنا پڑے۔

 ہم حلال کو حلال اور حرام کو حرام کسی سائنٹیفک توجیہ کی بنیاد پر نہیں کہتے بلکہ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔۔

 شراب اور سور کا گوشت اس لیے حرام نہیں کہ وہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ اس لیے حرام ہے کہ ہمارے اللہ کا حکم ہے ۔

زنا کاری اس لیے حرام نہیں کہ اس سے ایڈز کی بیماری پھیلتی ہے بلکہ اس لیے حرام ہے کہ اللہ نے اس کو ناپسندیدہ کہا ہے۔

 یہ الگ بات ہے کہ اللہ کے سارے احکامات کسی بھی حکمت سے خالی نہیں ہیں۔

 وقت آہستہ آہستہ ان کی مزید حکمتیں ثابت کر رہا ہے۔

 اگر کوئی کہے کہ اپنے عقیدے پر جمے رہو اور دوسرے کے عقیدے کو مت چھیڑو تو اس طرح تو ہم امر بالمعروف ونہی  عن المنکر کا کام کیسے کر سکیں گے؟

 لیکن اس کے لیے اعلی سطح کے باھمی تعلقات کی ضرورت ہوگی۔۔ آپ دوسرے سے اتنا قریب ہوں کہ اس کو بتا سکیں کہ اس کے عقیدے میں کہاں کمزوری ہے ۔۔ یہ کام شائستگی کے ساتھ ہوگا اپ بھی دوسرے کی بات سننے کے لیے تحمل کے ساتھ تیار ہوں۔۔

 یہ مثال دینا مجھے اچھا لگ رہا ہے جو میں نے پچھلے دنوں سنی ۔۔۔مسجد میں قبول اسلام کا ایک واقعہ ہوا ۔۔

نو مسلم نے بتایا کہ اس کا ایک مسلمان دوست شراب خانے میں کام کرتا تھا اور اس نے محبت اور دوستی کے ساتھ اس کو بتایا کہ حضرت عیسیؑ اللہ کے بیٹے نہیں ہیں۔۔ اور اس کی محبت کا وہ معترف تھا۔۔ اس نے لٹریچر پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔ 

کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے کیا شراب خانے کی ملازمت جائز ہے؟ تو جواب یہی ہے کہ بہت ممکن ہے کہ یہ اس کا داعیانہ کردار ہو۔

اسلام ہمیشہ اخلاق کے ذریعے پھیلا ہے نہ کہ تلوار کے ذریعے۔

 اخلاقی اصولوں سے متصف ہو کر ہی ہم اپنا مقام بنا سکتے ہیں اور اپنے دین کی صحیح سفارت کاری کر سکتے ہیں۔

 غیر مسلم دنیا میں ہر مسلمان بنیادی طور پر اسلام کا سفیر ہے کیونکہ لوگ اسلام کو الہامی کتاب کے ذریعے نہیں بلکہ ہمارے کردار کے ذریعے جانچتے ہیں۔۔۔

*********تمام شد*********