خاندان کو کس طرح مضبوط کیا جاسکتا ہے

خاندان کو کس طرح مضبوط کیا جاسکتا ہے        اسما فراز     پاکستان 

خاندان معاشرے کا  (   basic functional unit  ) بنیادی  فعلی اکائی ہے۔ کسی معاشرے  کی فلاح معاشرے میں موجود رہنے والے افراد کے باہمی تعلقات پر منحصر ہوتی ہے۔خاندان دو طرح کے رشتوں سے ملکر بنتا ہے۔

  •       نسبی رشتے (خونی رشتے)
  •       صحری رشتے ( شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد بنتے ہیں)

              ” اور وہ ہی ہے جس نے پیدا کیا ہے پانی سے آدمی پھر بنائے اس کے نسب اور سسرال  اور تیرا رب بڑی ہی  قدرت والا ہے (سورۃالفرقان :54)

کسی بھی معاشرے کے استحکام و مضبوطی کا دارومدار خاندان کے استحکام میں پنہاں ہے۔ اسلام محض عبادات و عقائد کے   مجموعے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہء  حیات ہے ۔ جس نے زندگی کے ہر شعبہ میں ابدی ہدایت و احکام سے  ہمیں  آ  گاہ کیا ہے۔ 

آپﷺ کی بعثت کا مقصد انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو نظام عدل پر قائم کرنا ہے۔ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے  انصاف اور نیک نیتی کےساتھ پورے کرے۔  ” حقوق العباد ” میں  اہل خانہ ، رشتے دار، پڑوسی ، اہل محلہ ، اھل بستی ، غرباء، حاجت مند ، سب شامل ہیں۔

             “خاندان کو مضبوط کرنے والے عوامل”

خاندان کی تشکیل کے وقت   :   ۔اگر منددجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے تو آگے جاکے خاندان اپنی صحیح خطوط پر قائم رہے گا۔

1         میاں یابیوی کے انتخاب کے وقت تر جیحات کا تعین کیا جائے-  کسی خاندان کی بنیادی اکائی میاں+بیوی ہوتے ہیں ان کے انتخاب پر ظاہری ٹپ ٹاپ ، نمودو نمائش ، پیسہ status     کو مد نظر رکھنے کے بجائے عورت یا مرد کی دینداری ، شعور ، تربیت، گھر کا ماحول اور رہن سہن کو دیکھا جائے ۔

2          Breaking Relation  میں پرورش پانے والے لڑکے / لڑکیوں دونو ں کی شخصیت میں کمی رہ جاتی ہے وہ مکمل طور پر حالات کا مقابلہ کرنے اور زندگی کے اونچ نیچ سے سپرد آزما ہونے کی اچھی صلاحیت نہیں رکھتے۔میاں بیوی اور بچوں کے نتیجے  میں بننے والے خاندان میں میاں اور بیوی کی باہمی ذہنی ہم آہنگی ،عزت و احترام  ، حقوق اور فرائض کی ادائیگی  بچوں کی تربیت پر بہت اثر کرتی ہے ۔گھر میں روز ہونے والے جھگڑے ، اختلافات اور الگ الگ طبعی  رجحانات  بچوں کی شخصیت کو متاثر اور کنفیوز کرتے ہیں ۔

ریسرچ کے مطابق ماں باپ کے بہتریں تعلقات، بچپن میں دیاگیا اچھا ماحول آنے والی زندگی میں  بچوں پر  بہترین اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ جسمیں زندگی کی طوالت ، اچھی صحت اور آنے والے چیلنجز سے صحیح طریقے سےمقابلہ شامل    ہے

دونوں والدین اولاد کی تربیت کے ذمہ دار ہیں۔

“بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو جہنم کی آگ سے ( سورۃالتحریم :6)

ماں باپ کو اپنے گھر کا ماحول بچپن ہی سے اصول و ضوابط پر ترتیب دنیا چاہیے ۔

  •                   بچوں کو بچپن ہی سے قواعد اور ضوابط کا پابند کیا جائے۔
  •                   صفائی کا خیال ، نماز کی پابندی ، کھانے اور سونے کے اوقات کار اور آداب ، وقت کی پابندی کی عادت اور سب سے بڑھ کر بڑوں کا احترام و تکریم لازمی جز ہے۔
  •                   بچوں پرنہ بے جاسختی کی جائے اور نہ لاڈپیار اور ضد پوری کی جائے ۔ بلکہ توازن کے ساتھ ان کی تریبت کی جائے اچھے کام کرنے پر ضرور حوصلہ افزائی کی جائے اور غلط کام کرنے کی صورت میں سرزنش کی جائے ۔

ایسے اچھے ماحول میں پرورش پانے والے معاشرے کے افراد جب اپنا خاندان بنائیں گے تو اپنی تربیت کی روشنی میں لوگوں سے باہمی تعلقات استوار کریں گے۔

     بچوں کو بچپن ہی  سےاخلاقی برائیوں سے بچایا جائے جیسے جھوٹ، چغلی ، حسد ، حرص و لالچ  اور اخلاقی خوبیاں پیدا کی جائیں ۔ بچوں کی اخلاقی ، جذباتی تربیت کے لئے والدین کو رول ماڈل بن کر دکھانا ضروری ہےبچے جو دیکھتے ہیں سنتے ہیں اْس پر عمل کرتے ہیں ۔

3         حقوق و فرائض کی ادائیگی :۔ خاندان میں موجود ہرفرد اپنے فرائض کی ادائیگی کرے اور دوسرے کے حقوق کا خیال رکھے تو ایک متوازن خاندان کی تشکیل ممکن ہوگی۔ خاندان میں موجود  سب سے زیادہ جن کے حقوق کو اہمیت اسلام نے دی ہے وہ والدین ہیں ۔ان کی عزت و تکریم کرنا خاندان کے استحکام میں بنیادی  حیثت رکھتا ہے۔

حدیث نبویﷺ          ” حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ    جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹوں سے شفقت نہیں کرتا اور جو ہمارے  عالموں کا حق نہیں جانتا وہ ہم میں سے نہیں ہے”   (سنن ابی داود  ،مسند احمد )

حل  :۔    

  خاندان کے ہر فرد کے کچھ  حقوق اور فرائض ہوتے ہیں  حقوق و فرائض لازم و ملزم ہیں۔

والدین کے حقوق کے بعد اولاد کے حقوق ، شوہر کے حقوق ، بیوی کے حقوق ، رشتے دارو ں کے حقوق ہمسایوں کے حقوق ، انسانوں کے حقوق   غرض اسلام نے ہر فرد کے حقوق اور فرائض کی یقین دہانی  کروائی  ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے فرائض پر توجہ دیں اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں تو  معاشرہ اور خاندان مستحکم ہوسکتے ہیں۔

 4      خاندان کےبڑے (ساس/سسر) والد ہ   والد کا مثبت کردار

                             خاندان کی مضبوطی  ، خوشحالی ، امن و سکون میں سب سے اہم کردار گھر کے بڑوں کا ہوتا ہے۔ عدل و انصاف کےسا تھ ذمہ داریوں کی تقسیم نہ ہونا  بے جا حمایت / مخالفت ، جھگڑوں یا  اختلاف کی صورت میں معاملات کو حکمت و دانائی کیساتھ حل نہ کرنا ، جھگڑوں کو غیر ضروری طول دینا ، سازشی عناصر کو پنپنے دینا، جھوٹ غیبت چغل خوری جیسے اخلاقی معاملات کی مذمت نہ کرنا گھر میں موجود افراد میں کسی ایک کی بہت زیادہ تعریف کرنا زیادہ آمدنی والے بچے ، یا زیادہ جہیزلانے والی بہو کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دینا خاندان کے بچوں   کے  درمیان فرق کرنا گھروالوں کے درمیان حسد اور مسابقت بازی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔۔

یہ تمام وجوہات ہیں جو کہ خاندان میں رہنے والوں کے درمیان محبت و یگانگت کی فضا پیدا نہیں ہونے دیتی بلکہ افراد ساتھ رہنے  کے باوجود دلی طور پر ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں ۔

حل :۔     خاندان کا بڑا اپنا مثبت ، غیر جانبدار کردار ادا کرے۔ بچوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے ۔

                             نبی ﷺ کی سیرت سے ہمیں ملتا ہے کہ :۔ حضرت انس رضی اللہ تعالہ عنہ ْ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اس دوران اس کا ایک بیٹا آیا ۔ اس شخص نے اپنے بیٹے کا بوسہ لیا اور اسے اپنی ران پر بٹھا لیا پھر اس کی لڑکی آئی اس نے اْس کو اپنے  سامنے بٹھا لیا یہ دیکھ کر رسول ﷺ نے اس کو مخاطب کرکے فرمایا ” تونے ان ددنوں کےساتھ انصاف و برابری کا برتاؤ کیوں نہ کیا –

نبی اکرم ﷺ والدین کو دو ہدایات دنیا چاہتے تھے

1   اولاد کے درمیان عدل و مساوات کی روش اختیار کرنا چاہیے ان کے درمیان برابری کا سلوک نہ کرنا ظلم ہے۔

2  دوسرے انہیں اپنی اولاد کے لئے عدل و انصاف مساوات و برابری کا بہترین نمونہ بننا چاہیے  تاکہ وہ اپنی  اولاد کے حقوق کی ادائیگی کےساتھ ان کی تر بیت کا ذریعہ بھی بنیں ۔

بچوں اور خاندان کو جوڑ کہ رکھنا اور عملی  تدبیر کرنا بڑوں کا اولین فرض ہے۔

5          مرد بحیثیت شوہر / بیٹا مثبت کردار :۔

                             خاندان کے استحکام میں مرد بحیثیت باپ  شوہر اور بحیثیت بیٹا کے کردار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ ایک طرف خاندان کو مضبوط  کرنے اور دوسری طرف  فساد کا سبب بنتا ہے۔

  • مر د کو اپنے کردار کو متوازن رکھنا ضروری ہے ۔ مرد اپنے گھروالوں، والدین اور بچوں کے درمیان توازن رکھے تو گھر میں دوریاں  پیدا نہیں ہو سکتیں
  •       گھر وں میں فساد کی بڑی وجہ مرد کی طرفداری ، غیر منصفانہ رویہ ،والدین ،گھروالوں یا بیوی بچوں کی طرف ہوتا ہے – بعض خاندانوں میں فساد کی وجہ جھوٹ ، الزام تراشیاں ہوتی ہیں  ۔ اگر شوہر یا بیٹا حکمت و توازن کیساتھ معاملات کو دو طرفہ دیکھے ، پرکھے بے جا طرفداری نہ کرے اور فوری ردعمل دینے سے گزیز کرے۔تو معاملات میں بہتری لائئ جاسکتی ہے-

حل :۔

 آپ ﷺ کےفرمان کے مطابق مومن جھوٹا نہیں ہوسکتا اور دوسرے فرما ن کے مفہوم کے مطابق تمھارے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کا فی ہے کہ  سنی سنائی باتوں پر یقین کرو۔

خاندان میں اکثر معاملات جھوٹ ، جلن ، حسد، الزام ، تراشیوں کی بنیاد پر خراب ہوتے ہیں۔

o   شوہر کو چاہیے سنی سنائی باتوں پر بغیر تصدیق کے یقین نہ کرے۔

o   فوری ردعمل دینے سے گریز کرے۔

o   گھر میں توازن و محبت کی راہ ہموار کرنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

6          مادیت پرستی ، انفرادیت، مسابقت بازی کی دوڑ:۔

                                             بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے رجحانات جن کی دین اسلام میں کوئی حیثیت نہیں ہے مگر ہمارے خاندانی نظام کے بگاڑ میں ان رجحانات کے کلیدی کردار ہیں ۔ اسلام مال کی محبت ، خود غرضی ، دنیا کے پیچھے بھاگنے کی  مذمت کرتا ہے، جبکہ اب ہر فرد اپنی جگہ خودغرضی ، بے حسی ظاہری ٹپ ٹاپ، مال کی محبت، مسابقت بازی میں تمام اخلاقی ، اسلامی اقدار کو پیچھے چھوڑتا نظر آتا  ہے۔

             مغرب سے ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرائیت کیے جانے والا انفرادیت کا رجحان ، جس نے خاندانی نظام کی آکائیاں  بکھیر کر خاندان کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے۔طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات میں ایک بڑی وجہ میاں اور بیوی کا دواکائیوں میں تقسیم ہوجانا ہے ۔ میری کمائی ، میراگھر میرا میرا کرنا ،ہر فساد کی جڑ بن گیا ہے ۔ پہلے مشترک خاندانی نظام میں شراکت اور ضرورت کی بنیاد پر خاندان ساتھ رہتے تھے کیسی ایک فرد کا مسئلہ پورے خاندان کا مسئلہ ہوتا تھا مگر انفرادیت کے ماحول میں ہر شخص اپنے حقوق کی جنگ میں پھنس گیا ہے اور ہر شخص عدم تحفظ کا شکار نظر آتا ہے ۔

حل:۔

۰ انفرادیت کو ختم کرنے کے لئے دوبارہ سے ہمیں اپنے گھر سے اپنی ذات، اپنے بچوں اور میرا، میرے کے بجائے ہمیں ہماراگھر ، ہمارے  بچے ہماری نسلوں کی فکر کرنی ہوگی اور سب کا گھر ، سب کے بچے کا تصور پیدا کرنا ہوگا۔

  •       رشتوں کو جوڑنے کی کوشش کرنی ہوگی
  •       خاندان کو جوڑنے کے لئے  دعوتوں کا اہتمام کریں پکنک ، دوسروں کی خوشیوں کو celebrate کریں ۔ ان کی خوشیوں پر ان کو تحائف دیں۔
  •       بچوں کے قرآن حفظ/ناظرہ   کا مکمل ہونے پر آپ اپنے گھر میں دعوت دیں اس طرح بچوں کی مشترکہ پارٹیاں  arrange  کریں ۔ ملکر کھلائیں Toys Share کروائیں ۔
  •       موجود دور میں Screen Addiction نے موبائل ، Tabs،, Laptop, IPad کے استعمال نے ساتھ ہوتے ہوئے بھی بچوں کو ماں باپ سے ، بہن بھائیوں کو ایک دوسرے سے دور کردیا ہے  معاشرے میں پھیلتے ہوئے اس ناسور کا حل  فوری   طور پر کرنا  استحکام خاندان کے لئے بہت ضروری نظر آتا ہے۔ جس کا حل میری نظر میں بچوں کے ساتھ  Quality Time گزارنا Physical Games میں ان کومصروف کرنا ہے ۔
  •       اور خود والدین کا اپنے اوپر جبر کرکے ان Screen  سے دور رہنا یا Controlled Use کرنا، والدین کو اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور بچوں کے لئے رول ماڈلز بنے کی ضرورت ہے۔

خاندان میں دوری اور فساد کی دیگر و جوہات

  •       اپنے رشتے داروں (میکہ) کو سسرال والوں پر فضیلت دینا یا دونوں کے درمیان فرق رکھنا ۔
  •       بچوں کے سامنے بڑوں کی برائیاں کرنا یا ان کے سامنے لوگوں کے معاملات کو ڈسکسں کرنے کے بجائےشوہر اور بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے رشتہ داروں کی عزت کرنی چاہیے –
  •       گھر والوں ، رشتے داروں کی  ضروریات کو چھوڑ کر باہر صدقہ خیرات دینا ،جبکہ گھر میں ضرور تمند موجود ہو۔    آپﷺ کے فرمان کے مطابق مساکین کو صدقہ دنیا ایک صدقہ ہے جبکہ اہل قرابت کو صدقہ دینا دوہرا ثواب ہے۔ ایک صد قہ کا اور دوسرا   صلہ رحمی کا    (جامع الترمذي، حدیث: 658)
  •       تجسس ، ٹوہ، بدگمانی ، غیبت و چغلی ، حرص و لالچ ، غرور و تکبر، طعنہ تشنی، بغص و حسد ،یہ وہ تمام اخلاقی برائیاں ہیں جن کو اسلام نے منع فرمایا اور کسی خاندان میں اس قسم کی اخلاقی برائیوں کا پنپنا  فساد رونما ہونے کا باعث بنتا ہے۔ دلوں میں  محبت کے بجائے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
  •       اپنا محاسبہ نہ کرنا، اور دوسروں پر بے جا تنقید کرنا، ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے عمل کے ذمہ دار ہیں اللہ کوئی نیکی ضائع نہیں کرے گا ۔ انسان زرہ برابر نیکی اور برائی قیامت کے دن دیکھ لے گا۔

 

اختلافات کو دور کرنے / خاندان کو جوڑنے اور مستحکم کرنے کے کچھ عملی  اقدامات ۔

o   اسلام ہمیں امن و سلامتی ، محبت و یگانگت، اخوت،مساوات  کا درس دیتا ہے۔ اختلافات رونما ہونے کی صورت میں ہمیں ان کا فوراّّ  تدارک کرنا چاہیے ۔

o   بہترین عمل اسلام میں “سلام” کرنا ہے ۔ یہ دعا ہے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ دوسرے مسلمان پر سلامتی کی  دعا بھیجے ،اور دوسرا جواب دے۔ ناراضگی دور کرنے اور دلوں کو قریب لانے کے لئے بہترین ہتھیار، سلام کرنا  ، مصافحہ کرنا ،دلوں کے کینے دور کرتا ہے-

 کھانا کھلائیں، دعوت کریں یا پھر گھر کچھ پکاکر بھیجیں  بہترین افضل عمل کھانا کھلانا ہے۔جس سے محبت بڑھتی ہے-

o   تحفے/ تحائف دیں  ۔ مسکرا کر خیریت پوچھیں  یہ دونوں عمل سنت رسولﷺ ہیں

o   ناراضگی کو طول نہ دیں اور دوسرے لوگوں کو اسمیں خوامخواہ Involve  نہ کریں ۔ اگر چہ آپ نے کسی کو ثالث بنانا ہو تو ضرور ثالث  بنا کر ناراضگی کو دور کرلیں ۔

o   عفو درگزر، بڑے ظرف کے کام ہیں اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ پسندیدہ لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں ، غصے کو پی جاتے ہیں۔

o   اللہ  تعالیٰ قطع رحمی کو ناپسند کرتا ہے ہمیں اس سے ہر صورت بچنا  چاہیے ۔ 

 اللہ تعالی ہمیں ان لوگوں میں شامل کریے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے  انصاف اور نیک نیتی کےساتھ پورے کرتے ہیں امین –