آپ کے ہاتھوں میں جو میگزین ہے ،کیا آپ اسکی کہانی جانتے ہیں ؟کچھ جانتے بھی ہونگے کہ میں کیا تھا اور کیا بن گیا ،مگر بہت بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو میری کہانی سے ناواقف ہو گی ۔آئیے آج میں آپکو اپنی کہانی سناتا ہوں تاریخ تو آگے بڑھتی جا رہی ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار بھی تیزی سے گذر رہے ہیں۔البتہ تاریخ میں رقم وہ سنہرے نقوش جو میرا سرمایہ حیات ہیں جنہیں نہ میں کبھی فراموش کر سکا اور نہ میرے پیارے ساتھیوں نے فراموش ہونے دیا۔ایسا لگتا ہے یہ 45 سالہ سفر نہیں، کل ہی کی بات ہو ۔
مجھے آج بھی یاد ہے وہ وقت ستر کی دہائی کے آخر میں انڈو پاک سے آئی چند بہنیں جو دین کی تڑپ رکھتی تھیں ،مغرب کی تہذیب سے مرعوب نہیں تھیں بلکہ ان پر انکا مقصد زندگی امر بالمعروف و نہی عن المنکر واضح تھا ۔جو دارلجزا میں سرخروئی کے لیے دارالعمل میں تیاری کرنا چاہتی تھیں ۔جنہیں آخرت کی تیاری کی فکر نے ایک دوسرے سے قریب کر دیا تھا جانتی تھیں
وقت نے کی ہے دوہری دوہری خدمتیں تیرےسپرد
خود تڑپنا ہی نہیں اوروں کو تڑپانا بھی ہے
اور قارئین محفل ! میں انکی اس فکر اور تڑپ کا نتیجہ ہوں،1978 میں ان بہنوں کی کوششوں سے نہ صرف میرا اجرأ ہوا بلکہ اکنا حلقہ خواتین بھی قائم کر دی گئی تاکہ تحریکی سوچ کو بڑھانے میں انکا معاون و مددگار بن جاؤں اور الحمداللہ اس دن سے میں قدم بہ قدم میں انکے ساتھ ہوں ۔ میرےاجرأ کے بعد میری شناخت کے بارے میں سوچا گیا میری پہچان کیا ہو ۔میرا کیا نام رکھا جائے ۔
مشترکہ رائے سے میرا نام “ بہنوں کے نام “ تجویز کیا گیا ۔آج تو آپ سب لوگ مجھے نور کے نام سے جانتے ہیں ۔ “بہنوں کے نام “سے لیکر “نور”کا سفر کیسے طے کیا ،یہ ایک لمبی کہانی ہے طویل جدوجہد کی کہانی ہے جیسے چند جملوں میں سمیٹنا گو کہ آسان نہیں ۔ہاں مگر کوشش کی جا سکتی ہے۔ ہ مبارک دن 9جولائی 1978 بمطابق 2شعبان 1398ھ بروز اتوار تھا۔ (بروکلن) نیو یارک دو ورقہ (نیوزلیٹر ) کی صورت میں نکلا ۔
میں پہلی دفعہ لوگوں کے ہاتھوں جب میں آیا ۔اس وقت وسائل کی کمی کی وجہ سے مجھے ہاتھوں سے لکھا جاتا تھا ،پھر اسکی فوٹو کاپی کر کے تقسیم کر دیا جاتا۔عام طور پر بہنیں میرے لئے چند قرآنی آیات ،حدیث اور کلام اقبال کا کچھ حصہ منتخب کرتی تھیں ۔
1978 میں میں دو ورقہ ماہانہ نکلتا تھا اٹھارہ ماہ تک میں پابندی سے نکلتا رہا۔ اسکے بعد 1980 میں حالات و واقعات کو دیکھتے ہوئے لوگوں کے اصرار پر میرے صفحات میں اضافہ کر دیا گیا اوراب میں 8 صفحات میں آنے لگا اور ماہانہ کی جگہ دو ماہی ہو گیا یعنی سال میں 6 شمارے۔
میں آپکو خود سے جڑی ایک اہم بات بتاتا ہوں ۔وہ بہنیں جنکی کوشش،تڑپ کا میں نتیجہ تھا۔انہیں اس مغربی تہذیب کی یلغار سے نہ صرف خود بچنا ،بچانا تھا بلکہ اپنے بچوں کو بھی بچانا تھا ۔اپنی آنے والی نسلوں کے تحفظ کے خیال سے وہ اکنا کی چھتری تلے جمع ہو کر سوچ بچار کرتیں۔انکو ہر دم یہ فکر لگی رہتی کہ بچے اسکول جا رہے ہیں،اسکولوں کی زبان انگریزی اور تہذیب غیر اسلامی ہے۔لہذا بہت سوچ بچار کے بعد ،شوری میں یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی عملی کام کرنا چاہیے۔لہذا 1981میں Kids Corner کے نام سے میرے اندر انگریزی صفحات کا اضافہ کر دیا گیا۔ اWho is Muslim کے نام سے مضامین لکھے جاتے تھے تاکہ مسلمان بچے اپنے مسلمان ہونے پر فخر کریں ،اپنی شاخت نہ کھو بیٹھیں اور اس غیر مسلم تہذیب میں ضم نہ ہو جائیں۔ان مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے Kids corner میں بچوں کی تربیت پر مضامین لکھے جاتے ۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ Kids Corner اتنا پاپولر ہوا کہ بچوں کی ضرورت اوراکےاندر قلمی صلاحیتوں کو نشونما کےلیے بچوں کے لیے، باقاعدہ ایک الگ میگزین (companion )انگریزی میں نکلنے لگا۔میں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ میں آنے والی نسلوں کے کچھ کام آ سکا ۔انکے قدم جمانے میں مدد کر سکا۔اگر بچپن سے انکی فکر نہ کی جاتی تو آج ہمارے بچے نہ جانے کہاں ہوتے۔
رفتہ رفتہ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میرے تحریکی ہمسفر مجھے بہتر سے بہتر بنانے کی فکر میں ہیں اور یہ احساس یقین میں بدل گیا جب1989 میں مجھے 8صفحات سے نکال کر ایک مکمل میگزین کی شکل دے دی گئی اور یہ سال کے چار موسموں کے نام پر نکلنے لگا ۔fall,spring ,summer ,winter ۔ اب میں باقاعدہ سہہ ماہی میگزین کی صورت میں آنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے مجھے اتنی پذیرائی ملی کے میں امریکہ اور کینڈا کے کئی شہروں میں پڑھا جانے لگا ۔یہ میرے رب کا احسان ہے کہ اس نے ایسے ساتھی دئیے ورنہ میگزین کی صورت میں میری اشاعت آسان نہ تھی ۔مجھ سے منسلک میرے ساتھی میرے ٹائیٹل کور پر بہت محنت کرتے تھے ۔چونکہ میرے ہر شمارے کی ایک تھیم ہوتی تھی تو ساتھی بہنیں تھیم کے مطابق آن لائن images سرچ کرتیں پھر آپس میں صلاح مشورہ ہوتا اور کور کو تھیم کے مطابق فائنل کیا جاتا ۔تھیم کا چناؤ موجودہ حالات کے مسائل کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھی باہمی مشاورت سے طے کرتے ۔
1992میرا پسندیدہ سال ہے ،جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ اس سال شوری کے مشورے سے میرا نام “ بہنوں کے نام سے بدل کر “نور” رکھ دیا گیا۔نور مطلب روشنی،جی میرا کام ،میرے مقاصد یہی تو ہیں کہ اپنے اندر جذب تحریروں کے ذریعےعوام الناس کو ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر حق کی روشنی دیکھاوں۔ یہ امر حقیقت ہے کہ کسی بھی تحریک کے جماؤ ،وسعت اور پھیلاؤ کے لئے قلم اور تحریر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
آئیے آپ کو روز اوّل سے تا حال اپنے مقاصد بتاتا ہوں۔کیونکہ مقاصد واضح ہوں تو کام کے نتائج بھی ہمیشہ موثر مفید نکلتے ہیں۔
مسلمانوں میں نصب العین کا شعور پیدا کر کے انھیں انکی ذمہ داریوں سے روشناس کرانا۔
غیر مسلموں میں اسلام کا مکمل تعارف اور تعلیمات پہچانا۔
۔
بلا شبہ قلم سےگہر نکالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔میرے اندر آج تک جو کچھ لکھا گیا قارئین اکرام گواہی دیں گے کہ میں کبھی اپنے مقصد سے نہیں ہٹا چاہے وہ اللہ رب العالمین کا ذکر ہو یا پیارے حبیب کی سیرہ ،صحابہ کرام کی تاریخ، حتی کہ افسانے ،کہانیاں،شاعری ہر تحریر میں ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔ظلم کے کے خلاف آواز اٹھانا میری ترجیحات میں روز اوّل سے شامل ہے ۔چاہے وہ کوئی خطہ زمین ہو ۔اسکا ثبوت میرا پہلا خصوصی نمبر “ہنزہ گل نمبر” ہے ۔میرے لکھنے والوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ نہ صرف مقامی(امریکہ ) مسائل کے بارے میں لکھیں بلکہ ان مسائل کا حل بھی دیں ۔سیاسی، سماجی معاشرتی کی اصلاح حال کے لئے انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کو بیدار رکھا ہے ۔یہ سلسلہ چلتا رہا میں ترقی کرتا رہا اور یہ احساس مجھے دامن گیر رہا کہ اللہ کا “نور” ہر طاغوت کو شکست فاش کر سکتا ہے ۔آیئے آپ کو روز اول سے تاحال مقاصد بتاتاہوں ۔ گوکہ میری صورت گری میں تبدیلی آتی رہی، مگر میرے مقاصد میں شروع روز سے لے کر تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ میں ایک مشن کے طور پر نکالا گیا تھا۔ اسلام کی اشاعت اس غیر مسلم معاشرہ میں ۔اس کا ہر گز ہرگز مقصد رسالو ں کی دنیا میں ایک اور رسالے کا اضافہ نہیں تھا ۔ میرا مقصد ادب برائے ادب نہیں، ادب برائے اقامت دین، قلم و قراطیں کو اقامت دین کا ذریعہ بنانا ، قلم و کاغذ کی قوت سے کون واقف نہیں جو انسان کو اندر سے اور باہر سے ظاہر اور باطن سے بدل کر اسلام کے مطابق ڈھال دے ۔ اس خطہ زمین پر بسنے والی دنیا بھر سے آئیں خواتین کو صحیح تعلیم سے روشناس کرانا ، امریکی معاشرے سے لیکر ملکی سطح تک کے روزمرہ مسائل کو سمجھانا اور انکا حل ڈھونڈنا تھا
تحریک کے کام کو بڑھانے اور جمانے کے لیے ،دنیا بھر کے لوگ جو اس ملک میں آباد ان تک اپنا پیغام پہچانے کے لئے ضروری تھا کہ اب میں اپنا پیغام اس ملک کی اپنی زبان میں دوں۔میری اس جدوجہد میں میری مدد ان بہنوں نے بہت کی جو یہاں کی مقامی زبان (انگریزی)سے مانوس تھیں ۔اورپھرمیرے صفحات ادھے انگلش اور ادھےا ردو ز بان میں تقیسم کرے گیے ،یوں وقت گزرتا گیا و قت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ اب میری اشاعت ایک الگ انگریزی زبان کے میگزین میں بھی ہونی چاہیے ۔2003 میں الحمدالللہ پہلی دفعہ مقامی زبان (انگریزی )میں میرا اجرا ہوا۔ پھر سال میں میرے تین شمارے اردو میں اور تین انگریزی میں نکلنے لگے ۔ ذمہ داری تو واقعی میرے ساتھیوں کی بہت بڑھ گئی تھی مگر ہم جانتے ہی ہیں کہ “جنکی ذمہہ داری سوا انکا اجر بھی سوا”۔
میری مدیرات ا ور انکی ٹیم ہر شمارہ کی تھیم طے کرتی پھر
عنوانات کا چناؤ ،رائٹرز سے لکھوانا، ان کی نوک پلک درست کرنا، رائٹرز کے خیالات اور احساسات کو قراٰن کریم اور احادیث سے صحیح انداز میں جوڑنا اوران کے حوالہ جات کی نشاندہی کروانے کے علاوہ پبلشنگ سے پہلے کے مراحل اوردیگراہم کام، بظاہر بہت دشوار گزار ہیں لیکن محض اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اپس کی مہربانی ،محبتوں،شفقتوں اور اخلاص کی نہایت مضبوط فضاء میں اس طرح کرتی ہیں کہ کچھ بھی مشکل ثابت نہ ہوتا۔ میرےکچھ شمارےخآص نبمر بھی ہوتے ہیں ان میں دوستی نمبر، شادی نمبر (النکاح من سنتی) فوزیہ ناہید نبمر سوشل جسٹس سیرہ
محمد صلی اللہ علیہ و سلم ، حیا نمبر وغیرہ
اب تک میرے صفحات بلیک اینڈ وائٹ تھے ا2016 کی بات ہےمجھے کلرز میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ۔اور پھر صفحات اور ڈیزاین کو رنگوں سے مزین کیا گیاجس سے میرے چاہنے والو ں کو بڑی مسرت ہوئی
یوں تو ہمیشہ مجھے آ گے سے آگے بڑ ھنے ، مقامی مسائل سے بڑھ کر عالمی سطح تک اسلام کے پیغام کو عام کرنے کی فکر رہتی تھی ۔ابھی یہ فکر چل ہی رہی تھی کہ کسطرح خود کو عالمی سطح پر متعارف کرایا جائے کہ 2019 میں کووڈ نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔جسکی وجہ سے زندگی معطل ہوکر رہے گئی تھی ۔لاک ڈاؤن مستقل چل رہا تھا، ضروریات زندگی محدود ہو گئیں تھیں۔جہاں دوسرے سارے کام بند ہوئے
وہیں میری پرنٹگ بھی رک گئی ۔مگر اس تحریک نے جسکا میں حصہ ہوں کیا خوب دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ حالات جو بھی ہوں ہمیں آگے بڑھنا ہے ،ہمیں کام کرنا ہے ۔اب وہ وقت ہے جو ہمیں اپنی پہچان علمی سطح پر کروانی ہے ۔قلم کے ذریعے سے لوگوں میں موجود اضطراب ،بےچینی ،بے یقینی کو ختم کرنا ہے
اور یوں اس دانشمندانہ فیصلے کے نتیجہ میں میں آن لائن آنے لگا یعنی میں E MAGAZINE میں تبدیل ہوگیا ۔اب میں ملکی میگزین سے انٹرنیشنل رسالہ بن گیا اب میں صرف امریکہ ،کینڈا میں ہی نہیں بلکہ آسٹریلیا،انڈیا،سپین، ناروے، انگلینڈ،پاکستان،جرمنی،عرب امارات وغیرہ میں پڑھا جانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے روزبروز میرے قارئین میں اضافہ ہو گیا ۔سوچتا ہو میں کیا تھا دو ورقوں سے شروع ہوا تھا اسوقت بامشکل میرے تیس قاری تھے اور اب الحمدللہ میرےہزاروں قارئین ہیں رب العزت کا میں جتنا شکر کروں کم ہے کہ اس نے مجھے تعلیم یافتہ ،مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد عطا کیے جو من اجری الی اللہ کے تحت کام کرتے ہیں ۔جنہوں نے مجھے ان بلندیوں تک پہنچایا۔
کہنے کو یوں تو بہت کچھ ہے، میری کہانی تو بہت سے دلچسپ واقعات سے بھری ہے ،مگر طوالت کے خیال سے اب
اجازت چاہوں گا۔ آپ لوگوں کو کیسی لگی میری کہانی ، بور تو نہیں ہوئے ناں۔۔؟؟
انشاء اللہ تادم آخر میں آپ کے ساتھ رہوں گا ۔
آپ کا مخلص ساتھی
نور میگزین