رمضان کی پھر آمد آمد ہے۔ ہر سال رمضان امیدوں کی بہار لے کر آتاہے۔ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہم سب کمر کس کر اس کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں مگر عموما ہوتا یہ ہے کہ رمضان کے کچھ دن تو بڑے جوش و خروش کے ساتھ عبادتوں کے ساتھ گزرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے جاتے ہیں۔ آخری کی طاق راتیں پھر ایمان کی طاقت کی نئی کمک کے ساتھ گزرتی ہیں اور رمضان کے رخصت ہوتے ہوئے یہ شدت سے احساس ہوتا ہے کہ
اگرچہ کہ اللہ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہم بندوں کے بس کی بات ہی نہیں اوراپنی استطاعت بھر کرنا ہی ہمارا فرض ہے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کیا اپنی استطاعت کے مطابق عبادت کر پاتے ہیں۔ رمضان یا کسی بھی موقع پر ہم عموما اس لیے اپنے طے کردہ ٹارگٹ تک نہیں پہنچ پاتے کیونکہ ہمارے اندر پلاننگ کی کمی ہوتی ہے۔ مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ اگر آپ پلاننگ میں فیل ہوگئے تو گویا آپ نے فیل ہونے کی پلاننگ کر لی۔ اس لیے اگر اس آنے والے رمضان کو پچھلے تمام رمضان سے زیادہ ثمرآور بنانا ہے تو پلاننگ کرنی ہوگی۔
اگلے رمضان کی تیاری رمضان کے اختتام پذیر ہوتے ہی ہوجانی چاہیے مگر فکر نہ کریں ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی۔ کوشش کریں کہ کم ازکم شعبان سے پہلے پلاننگ کرلی جائے اور نہیں تو شعبان کے مہینے میں تو ضرور ہی کر لی جائے کیونکہ اگر رمضان سے پہلے رمضان کی پلاننگ نہیں کی تو پھر رمضان سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھایا جاسکے گا جتنا ہم چاہتے ہیں۔
ہم خواتین کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم بڑی بڑی پلاننگ اپنے دماغ میں کرتی ہیں اور مطمئن ہوجاتی ہیں کہ پلاننگ کرلی۔ پھر دماغ میں جہاں پلاننگ کی ہوتی ہے ، اس کے اوپر دس ہزار اور سوچیں آجاتی ہیں اور ہماری پلاننگ ان کے نیچے کہیں دب جاتی ہیں۔ اس لیے اگر رمضان سے فائدہ اٹھانا ہے تو اپنی پلاننگ دماغ میں لکھنے کے بجائے کاغذ پر لکھیں۔ اب تو ہمارے فون نے کاغذ کی جگہ سنبھال لی ہے اس لیے اگر کاغذ نہیں تو فون پر لکھ لیں مگر جب تک اپنی پلاننگ لکھ نہ لیں اپنی پلاننگ کو مکمل نہ سمجھیں۔ انسانی نفسیات یہ کہتی ہے کہ جس کام میں انسانی حسیات جتنی شامل ہونگی دماغ میں وہ کام اتنا ہی گہرائی کے ساتھ رقم ہوجائے گا۔ اب اگر پلاننگ میں صرف دماغ استعمال ہوا ہو تو وہ سطحی طور پر ہی موجود ہوتی ہے مگر اگر اس کام میں دماغ کے ساتھ ساتھ آنکھیں اور ہاتھ بھی استعمال ہوئے ہوں تو پھر وہ پلاننگ دماغ میں گہری ہوجاتی ہے۔ اگر اس کو لکھ کر اپنے فرج پر لگا دیا جائے تو بار بار نظر پڑنے سے یاد دہانی ہوتی رہتی ہے۔ اسی طرح اگر فون کے نوٹس میں لکھ لیا جائے تو بھی اس پر نظر بار بار پڑنے کا امکان ہوتا ہے اور وہ پلاننگ دماغ کے کسی گوشے میں دفن نہیں ہوپاتی۔ اس لیے پلاننگ کرنے سے پہلے اس پلاننگ کو محفوظ رکھنے کی پلاننگ کرلیں۔
رمضان میں گھر کے دیگر کاموں سے جان تو نہیں چھوٹتی بلکہ اس میں کچھ اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ گھر کے کاموں کی بھی پلاننگ کر لی جائے۔سحر و افطار کی بھی اگر پہلے سے پلاننگ نہ کی جائے تو وہ ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضائع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پھر عبادتوں کے بھی مختلف پہلو ہوتے ہیں۔فرائض، نوافل، تلاوت، قیام الیل سب کو پلاننگ میں شامل کیا جائے۔
رمضان ایک جسمانی مشقت کا مہینہ ہے ۔ اس مہینے میں اگر ہم دیگر کاموں میں تھکن کا شکار ہونگے تو لامحالہ عبادت کے کاموں میں حرج ہوگا اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ کسی بھی غیر ضروری بھاری کاموں میں خود کو ہلکان نہ کیا جائے۔وارڈروب کی صفائیاں ہوں یا باورچی خانے کی صفائیاں، کوشش کریں رمضان سے کم ازکم پندرہ دن پہلے کرلیں تاکہ آپ کو رمضان کے پورے مہینے کسی گہری صفائی کی ضرورت نہ پڑے۔
اس معاملے میں ہمیں دونوں انتہاپسندی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ نہ تو اس قدر اہتمام کرنے لگ جائیں کہ تھکن کے مارے ہم سے عبادت نہ ہوپائے اور نہ اتنی سادگی اختیار کریں کہ دسترخوان کے حسن کو ختم کردیں۔ یقینا ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے رمضان کو کھانے پینے سے منسلک کریں مگر جس زمانے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں اچھا کھانا پینا زندگی کا ایک اہم جز ہے۔ اگر ہم رمضان میں اپنے دسترخوان کو نہیں سجائیں گے تو ہم اپنے بچوں اور گھر والوں کے لیے اس مہینے کو ایک عام مہینہ بنا دیں گےاور ان کے لیے اس مہینے کا حسن ان سے گم ہوجائے گا۔ بہت زیادہ اہتمام بھی نقصان دہ ہے کیونکہ نہ کہ صرف ان کاموں میں پھنس کر ہم اپنا وقت اور طاقت ضائع کرتے ہیں بلکہ اتنا زیادہ مرغن اور بھاری کھانا ہماری اور ہمارے گھر والوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچاتا ہے ۔ رمضان سے پہلے بچوں اور دیگر گھر والوں سے اس موضوع پر بات کرلیں۔ کوشش کریں روزآنہ تین سے چار ڈشز ہی ہوں افطار پر۔ کچھ ایسی ہونگی جوگھر والے روز کھانا چاہیں گے، جیسے پکوڑے، سموسے، دہی بڑے، چاٹ وغیرہ۔ کچھ ڈشز ایسی ہونگی جو کبھی کبھی بنے گیں اگر ممکن ہو تو پورے مہینے کا مینو بنا لیں جس میں روزآنہ چار ڈشز ہوں، دو مستقل اور دو نئی۔ مستقل ڈشز کا فائدہ یہ ہوگا کہ روز ایک جیسی چیز بنانے میں بہت زیادہ دماغ اور محنت خرچ نہیں ہوگی اور دو مختلف ڈشز بنانے کا فائدہ یہ ہوگا کہ گھر والوں کو نئی ڈشز کھانے کو ملیں گی اور وہ خوش ہونگے۔ رمضان کے ختم ہونے کے بعد بھی اگلے رمضان کا انتظار کریں گے۔ سحری کے لیے بھی کباب یا گھر والوں کی پسند کی کچھ چیزیں بنا کر رکھ لی جائے جائیں تو سحری کا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اگر گھر والے پراٹھے اور روٹیاں پسند کرتے ہیں تو پہلے سے بنا کر فریز کر لیں یا پھر بنی بنائی خرید لیں، دونوں طرح سے آپ دیکھیں گی کہ آپ کا کام آدھا ہوگیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے کپڑوں کی خریداری کا جو مزہ رمضان میں ہے وہ مزہ پہلے کرنے میں نہیں ہے مگر اگر ہم اس مزے کی قربانی دینے والے بنیے تو اللہ تعالی سے امید ہے کہ وہ ہماری عبادتوں میں حلاوت پیدا کرے گا۔ بازاروں کےچکر ہمارے دین میں ویسے ہی پسندیدہ نہیں اور رمضان میں تو اور بھی ناپسندیدہ ہوجاتے ہیں۔ اگر آنلائن خریداری بھی کی جائے تو کمپیوٹر اور فون پر بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔ اس لیے کوشش کریں کہ عید کی تیاری رمضان سے پہلے ہی کرلی جائے۔ کپڑے ، جوتے ، زیور، گھر کا سامان، تحائف جو بھی خریدنا ہو، رمضان سے پہلے خرید لیں تاکہ رمضان میں بازار کےغیر ضروری چکر نہ لگانے پڑیں۔
یہ سب سے اہم پلاننگ ہے جس میں ہم سے اکثر کوتاہی ہوجاتی ہے۔ ہم ذہن میں پلاننگ تو کر لیتے ہیں مگر بڑی مبہم سی ۔ مثال کے طور پر ہم یہ پلاننگ کرتے ہیں کہ اس رمضان دو قرآن مکمل کریں گے مگر ہم اس سلسلے میں یہ پلاننگ نہیں کر پاتے کہ اگر ہمیں دو قرآن ایک مہینے میں ختم کرنے ہیں تو روزآنہ کتنا پڑھنا ہوگا اور نہ پڑھنے کی صورت میں کیا ہوگا۔ اسی لیے پلاننگ ہمیشہ گہرائی کے ساتھ اور مکمل ہونی چاہیے۔
اگر ہمیں دو قرآن کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تق اوقات کی پلاننگ بھی کریں اگر ہر نماز کے بعد آدھے پارے کی تلاوت کر لی جائے تو ڈھائی پارے ہوجاتے ہیں۔ مزید آدھے پارے کے لیے بھی کوئی وقت مختص کرلیا جائے تو آسانی کے ساتھ تلاوت کی جاسکتی ہے قران عمل کی کتاب ہے اسکو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہمارا رب ہم سے کیا کہہ رہا ہے اس کے لیے قران کی تفسیر جانا بہت ضروری ہے اگر کوئی تفسیر دورہ قران کہیں جاکر یا ان لائن سن سکتی ہیں تو اسکا اہتمام کریں اور ممکن نہ ہو تو اس مہینے میں کوئی خاص سورت چن لیں۔ اس کے ترجمہ، تفسیر اور تشریح پڑھیں یا سنیں۔ کسی ایک تفسیر پر انحصار نہ کریں بلکہ کوشش کریں دو یا اس سے زائد تفسیر پڑھ یا سن لیں تاکہ وہ سورت اس ایک مہینے میں آپ کو مکمل سمجھ آجائے۔ اگر ممکن ہو تو اس سورت کو یاد بھی کرلیں مزید سونے پر سہاگہ ہوجائے گا۔اور قران کا تفسیر سے مطالعہ کو عادت بنا لیں تاکہ اگلے رمضان تک آپ قران کا پیغام سمجھ چکی ہوں اسی طریقے سے دوسری عبادات کی بھی پلاننگ کرنی چاہیے۔ علم حاصل کرنا بھی عبادت ہے احادیث یا کوئی سیرت رسول ص کی کتاب کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا
اسی طرح سے کچھ دعاؤں کو بھی اپنی پلاننگ میں شامل کرلیں۔ یاد کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ جو بھی دعا یاد کرنی ہو وہ لکھ کر فرج پر یا کسی ایسی جگہ پر رکھے کہ چلتے پھرتے آتے جاتے جب بھی نظر پڑے اس کو دہراتے رہیں۔ انشاءاللہ کچھ ہی دنوں میں وہ دعا زبان پر رواں ہوجائے گی۔
تہجد کا اہتمام اور عادت ڈالنے کے لیے بھی یہ مہینہ بہترین مہینہ ہے سحری میں تھوڑی دیر پہلے اٹھ کر دو رکعت چار رکعت یا مزید جتنی بھی آسانی کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہو اسکا اہتمام کرنے کی کوشش کریں تہجد کے وقت کی دعا رد نہیں کی جاتی ۔
اللہ تعالی نے صرف ہمیں جہنم کی آگ سے بچنےکی کوشش کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ اپنے اہل و عیال کو بھی بچنے کی ترغیب دینے کا حکم دیا ہے۔ اس لیے اس رمضان صرف اپنے لیے پلاننگ نہ کریں بلکہ اپنے بچوں اور دیگر گھر والوں کو بھی اس میں شامل کریں۔
اگر بچے زیادہ چھوٹے ہیں تو ان کے لیے ایک چارٹ بنا کر فرج پر لگا دیں اور ان کو ترغیب دیں کہ وہ روز کوئی ایک اچھا کام کریں اور اسے اس چارٹ پر لکھ دیں ۔ اس کے بعد عید کے دن جس بچے کی نیکیاں زیادہ کی ہوں اس حساب سے اسے کوئی چھوٹا موٹا تحفہ دیں۔ باقی بچوں کو بھی کچھ نہ کچھ دیں، مگر خیال رہے یہ کام صرف چھوٹے بچوں کے ساتھ کریں، بڑے بچوں کا ایمان اللہ تعالی کی طرف سے ملنے والے انعام پر ہونا چاہیے۔
بڑے بچوں کو اپنے ساتھ ملا کر سورتوں اور دعاؤں کو حفظ کرنے کا مقابلہ ترتیب دے لیں۔ اور پھر پورا مہینہ ایک دوسرے کو یاد بھی دلاتے رہیں اور ایک دوسرے سے دعائیں اور سورتیں سنتے بھی رہیں تاکہ پورا دن قرآن سننے سنانے کا ماحول گھر میں بنا رہے۔ چونکہ بچوں کو اسکول کی پڑھائی بھی ساتھ لے کر چلنی ہوتی ہے اس لیے یہ پلاننگ بچوں کے مشورے سے کریں تاکہ ان کو اپنے اوپر بوجھ نہ لگے۔ رمضان کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ سورتیں اور دعائیں یاد کرنے کی خوشی میں ایک اچھے سے لنچ پر چلے جائیں تاکہ بچوں کے اندر یہ احسا س پیدا ہو کہ قرآن واقعتاً ایسی چیز ہے کہ جس کے حاصل ہونے پر خوشیاں منانی چاہیے۔
تراویح کے لیے گھر کے تمام افراد مسجد جانے کا اہتمام کریں مل کر کمیوںٹی کے بچے خواتین اورمرد جب نماز پڑھتے ہیں تو آسانی کے ساتھ ہو بھی جاتی ہے اور آپس کے تعلقات بھی بہت اچھے ہوجاتے ہیں نئے لوگوں سے دوستیاں ہوجاتی ہیں لڑکوں کو مسجد جانے کی پابندی کروایں تاکہ ان کی عادت پختہ ہو ۔
رمضان کے مہینے میں ہر نیکی کا بڑھا چڑھا کر اجر ملتا ہے اس لیے ہم اپنے آپ کو اس مہینے میں نیکی کرنے کے لیے مشتاق پاتے ہیں۔ نیکی جسمانی بھی ہوتی ہے اور مالی بھی۔ اسی لیے اکثر لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ رمضان کے مہینے میں اپنی
زکوَت نکالیں تاکہ اجر زیادہ ملے۔ ہمیں مگر اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ زکوۃ فرض عبادت ہے اور اللہ تعالی محسنین سے محبت کرتا ہے۔ محسنین وہ ہوتے ہیں جو اپنے حق سے زیادہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ
ﷺ کے بارے میں ہمیں حدیث ملتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے مہینے میں انفاق کے معاملے میں تیز چلتی ہوئی ہوا جیسے ہوتے تھے۔ انفاق کرنا اس وقت بہت آسان ہوجاتا ہے جب ہمارا یہ ایمان ہو کہ ہمارا یہ پیسہ ضائع نہیں ہورہا بلکہ ہمارے ہی ایک اکاؤنٹ سے دوسرے اکاؤنٹ میں منتقل ہورہا ہے وہ بھی بے شمار منافع کے ساتھ۔ کوشش کریں کہ ہر روز تھوڑا تھوڑاصدقہ ضرور نکالیں اور ہر طرح کی نیکی کا موں میں صدقہ مثلاً غریب رشتہ داروں کے لیے ، ضرورت مندوں کے لیے دعوت دین کے کاموں کے لیے نان مسلم میں دعوہ کے لیے مسجد اسلامک اسکول اور بھی کئی طرح کے کام ہوسکتے ہیں تاکہ روز اجر ملے اور طاق راتوں کو بھی نکالیں تاکہ رات کی عبادت میں شامل ہوسکے۔
رمضان ہم جتنے جوش اور ولولے کے ساتھ شروع کرتے ہیں ، مہینہ گزرتے گزرتے ایک جیسی روٹین کی وجہ سے اس میں ایک سرد مہری سی آنے لگتی ہے۔ کتنا پیارا رب ہے ہمارا کہ آخری دس راتیں اس نے ہماری عبادت کے لیے خاص بنا دیں تاکہ مرجھائی ہوئی عبادتوں اور ایمان میں ایک دفعہ پھر تر و تازگی پیدا کی جاسکے۔ کوشش کریں کہ صرف طاق راتوں کے بجائے پوری دس راتیں جاگیں تاکہ لیلۃ القدر کے نہ ملنے کا کوئی امکان ہی نہ رہے۔ اگر گھریلو مصروفیات کی وجہ سے پوری رات جاگنے کی استطاعت نہیں ہے تو کم از کم بارہ بجے کے بعد ایک یا دو گھنٹے کی عبادت کا ارادہ ضرور کریں۔ الارم لگا کر اٹھیں اور ایک دو گھنٹے کی عبادت کے بعد دوبارہ سو جائیں۔ یاد رکھیں کہ ہمارے پاس کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اگلا رمضان ہمیں ملے گا یا نہیں اسی لیے یہی دس راتیں ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ نیندیں پوری کرنے کے لیے تو ان شاءاللہ پورا سال ملے گا ہی۔
ان راتوں میں دل کھول کر اللہ تعالی سے بات چیت کیجیے۔ اس کو اپنے دل کے زخم دکھائیے، اپنی آرزوئیں بتائیے، اس کی عطا کردہ نعمتوں پر شکرگزاری اور اپنے گناہوں پر شرمساری دکھائیے۔ خوب روئیے اور گڑگڑائیے اور اللہ تعالی سے اپنے لیے بخشش لے کر ہی اٹھیے۔ رمضان کی راتیں وہ واحد راتیں ہیں جب اللی کے رسول ﷺ اپنے اہل خانہ کو بھی عبادت کے لیے اٹھایا کرتے تھے۔ اس لیے ان راتوں میں صرف خود اٹھنے کا اہتمام نہ کریں بلکہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو بھی اٹھائیں۔ چاہے کوئی آدھا گھنٹے کے لیے اٹھے ، مگر اٹھ کر اللہ کے سامنے اپنی حاضری ضرور لگائے۔ اپنی دعاؤں میں اپنی حاجتیں بھی خوب خوب مانگیں مگر امت مسلمہ کو ہر گز نہ بھولیں۔ اللہ تعالی سے اپنے محبوب ﷺ کی امت پر رحم مانگیں ، اس کی نصرت مانگیں۔
جو خواتین ان راتوں میں عبادت نہیں کرسکتیں ، وہ ان راتوں میں دعائیں مانگ سکتی ہیں ۔ علم حاصل کرنا بھی عبادت ہے۔ ان راتوں میں علمی کتابیں لیکچر سنے جاسکتے ہیں۔ اللہ تعالی ان راتوں کو بہت قیمتی بتاتا ہے، اور اللہ تعالی سے سچی کس کی بات ہوسکتی ہے اس لیے ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری ذرا سی غفلت اور سستی اور کاہلی کی وجہ سے یہ قیمتی راتیں ہم سے ضائع نہ ہوجائیں۔
رمضان کے مہینے میں یہ بھی طے کریں کہ کوئی ایک نیکی کی عادت اپنانی ہے اور ایک بری عادت چھوڑنی ہے۔ اور پھر پورے مہینے اس نیکی کو اپنانے کی کوشش کریں اور برائی کو چھوڑنے کی کوشش۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی مایوسی کا شکار نہ ہوں ۔ چاہے جتنی دفعہ بھی ناکام ہوں ، کوشش جاری رکھیں اور اللہ تعالی سے مدد طلب کرتی رہیں۔
اللہ تعالی ہمارے کاموں کو آسان کرنے والا ہے اور وہ خود کہتا ہے کہ بندہ ایک قدم اس کی جانب چلتا ہے تو وہ خود دس قدم اس کی طرف آتا ہے۔ اللہ تعالی ہماری پلاننگ اور کوششوں کو اس کی جانب بڑھتا ہوا ایک قدم سمجھے اور اس میں برکت ڈالے، آمین