رسائل و مسائل

رسائل و مسائل

سوال: کسی شخص نے سالہا سال سے اپنی فرض نمازیں ادا نہیں کیں اور عمر کے کسی حصے میں

 اللہ تعالیٰ نے اسے توفیق دی اور وہ پانچ وقت کا نمازی بن گیا اور ساری نمازیں وقت کی پابندی سے ادا کرنے لگا۔ اب اسے خیال آیا کہ وہ اپنی قضا شدہ نمازیں پوری کرے، اس کے لیے قضاے عمری کا طریقہ رائج کیا گیا ہے اور مختلف طریقے بتائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یا صحابۂ راشدینؓ کے دور میں ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی شخص مسلمان کہلائے اور پابندی سے نماز ادا نہ کرے، یہاں تک کہ منافق بھی پابندی سے نماز ادا کرتے تھے، مبادا ان کا پول کھل جائے۔ اس وقت قضاے عمری کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ رسول اکرمؐ کی بے شمار احادیث ہیں جن سے ثابت ہے کہ نماز چھوٹ جانے کی صورت میں پہلی فرصت میں اسے ادا کرے۔ مَن نَسِیَ صَلٰوۃَ فَلْیُصَلِّھَا اِذَا ذَکَرَھَا کَفَّارَۃَ لَھَا اِلاَّ ذٰلِکَ، ’’جو شخص نماز بھول جائے (یا سو جائے) اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس وقت یاد آئے اس نماز کو پڑھے۔ اسی طرح جنگ کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے جو بھی نماز وقت پر ادا نہ ہوسکی، نبی اکرمؐ نے اسی دن اس کو ادا کیا۔ قضاے عمری کا طریقہ کب اور کیسے رائج ہوا، جب کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے؟

جواب:  ایک مسلمان جب بالغ ہوجائے تو اس پر تمام شرعی فرائض ادا کرنا لازم ہوجاتے ہیں۔ اگر کسی آدمی کو بلوغت کے بعد اس کا احساس نہ ہوا، ماں باپ یا ملنے جلنے والے مسلمانوں نے اس کی اصلاح کی کوشش نہ کی یا کوشش کی ہو لیکن اسے احساس نہ ہوا ہو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ اسے توبہ کی توفیق ملی اور اس نے توبہ کے بعد تمام فرائض ادا کرنا شروع کردیے۔ وہ پانچ اوقات کی نمازیں، رمضان کے روزے، زکوٰۃ اور دیگر فرائض اداکرنے لگا ہے تو اس کی توبہ کا تقاضا یہ بھی ہے کہ وہ سابقہ زندگی کی کوتاہیوں پر نادم ہو اور جو فرائض توبہ سے پہلے تک کے عرصے میں اس سے رہ گئے ہیں وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہیں۔ وہ ازخود ساقط نہیں ہوں گے جب تک وہ ان فرائض کو ادا نہ کرلے۔ اپنی عمربھر کی نمازوں اور دیگر فرائض کو ادا کرنا قضاے عمری کہلاتا ہے۔

جس آدمی نے بالغ ہونے کے بعد فرض نمازیں نہ پڑھی ہوں، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر ’دین‘ ہیں۔ جیسے ایک آدمی نے کسی سے کوئی چیز خریدی ہو اور اس کی قیمت اس کے ذمہ رہتی ہو تو وہ رقم اس آدمی پر دین ہوتی ہے اور وہ اس وقت ساقط ہوتی ہے جب وہ اس رقم کو ادا کردے۔ یہی حکم فرض نماز اور روزے کا ہے۔

آپ نے بھولی ہوئی نماز کو یاد آنے کے بعد ادا کرنے کا ذکر کیا اور حدیث شریف میں  ادا ہی کو اس کاکفارہ قرار دیا ہے۔ تو جان بوجھ کر ترک کر دینے والی نماز کو تو بدرجہ اولیٰ ادا کرنا ضروری ہوگا تاکہ اس کی ادایگی سے اس کا کفارہ بھی ہوجائے۔ یہ بات ہرمسلمان کو معلوم ہونی چاہیے کہ بالغ ہونے کے بعد فرائض اور واجبات کو ترک کر دینا خصوصاً فرض نمازوں کو ادا نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ بعض فقہا نے تو اس کو اتنا بڑا گناہ قرار دیا ہے کہ ان کے نزدیک اس کی تلافی قضا سے بھی نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس کی تلافی کے لیے قضا کے ساتھ مسلسل توبہ و استغفار بھی ضروری ہے۔

قضاے عمری کا یہ معنی نہیں ہے کہ ماضی کی تمام قضا نمازوں کے عوض کوئی شخص کسی دن دورکعت پڑھ کر ماضی کی ساری نمازوں سے سبکدوش ہوجاتا ہے۔ یہ علما میں سے کسی عالم کا نظریہ نہیں۔  لوگوں نے اپنی طرف سے اس قسم کی قضاعمری اختراع کی ہے۔

قضا کا طریقہ یہ ہے کہ بلوغت کے بعد جتنے سالوں کی نمازیں رہ گئی ہوں اتنے سال وقتی نماز کے ساتھ ایک ایک قضا نماز بھی پڑھے، اس طرح ہر دن پانچ فرض نمازوں کے ساتھ پانچ قضا نمازیں بھی ادا ہوجائیں گی اور کسی بڑی مشکل کے بغیر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرض کی ادایگی کی سعادت حاصل ہوجائے گی۔ یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ قضا صرف پانچ اوقات کے فرائض اور وتروں کی ہوتی ہے۔ سنتوں کی قضا ضروری نہیں۔ (مولانا عبدالمالک)

بے عملی کا کوئی جواز نہیں

سوال: میں ایک طالب العلم اور دینی ذوق رکھنے والا مسلمان ہوں، مگر کچھ عرصے سے ایک عجیب اُلجھن پیدا ہوگئی ہے جو حل ہونے میں نہیں آتی۔ متعدد اہلِ علم سے رجوع کیا مگر تسلی نہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور کتب ِ حدیث میں اس قسم کی آیات و روایات آئی ہیں، جن سے نماز روزہ اور دیگر اعمالِ صالحہ کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، مثلاً مسلم اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یومِ عاشور کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفّارہ ہے۔ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کے بارے میں احادیث ہیں کہ ہر روزے کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ حضرت ابوقتادہؓ کی روایت ہے کہ اس سے دو سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ یومِ عرفہ کے روزے کا ثواب بھی اتنا ہی مذکور ہے۔ اگر واقعی یوں ہی ہے، تو پھرکیا اِس سے گناہوں سے بچنے کی کیا ضرورت رہی؟ حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ جس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ مشکوٰۃ میں نمازِ تسبیح کے فضائل بیان ہوئے ہیں کہ اس سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ابوداؤد اور مسنداحمد میں بیان  کیا گیاہے کہ چاشت کی نماز سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ مشکوٰۃ میں ہے کہ اس کے بعد گناہوں سے کون بچے گا اور نیکی کی تکلیف اٹھائے گا؟ سورئہ رحمن میں فرمایا: وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ۔ کیا جو شخص رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے، مگر کوئی اچھا عمل نہ کرے اُسے دو جنتیں یا دو باغ مل جائیں گے؟ سورئہ حم سجدہ میں آیا ہے کہ جو لوگ کہہ دیں کہ ہمارا رب اللہ ہے،   پھر جم جائیں،اُنھیں فرشتے جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی آیات و روایات ہیں جو آپ کی نظر میں ہوںگی۔ ان سے جو غلط فمی اور تہاون [بے پروائی] پیدا ہوسکتا ہے، اُس کا سدّباب کیسے ہوسکتا ہے اور جو اعتراضات و سوالات سامنے آتے ہیں اُن کا کیا جواب دیا جائے گا؟

جواب: آپ کے سوال کا جواب دینے کے لیے خاصی طویل بحث کی ضرورت ہے۔ سرِدست مختصر جواب دیا جا رہا ہے۔ خدا کرے کہ موجب ِ تشفی ہو۔ آپ نے قرآن وحدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے جو نقطۂ نظر اختیار کیا ہے اُس میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ اپنے سامنے صرف ایک پہلو اور ایک رُخ کو رکھا ہے اور صرف اُن آیات و احادیث کو مرکز ِ توجہ بنا لیا ہے جن میں بعض اعمالِ حسنہ کے نتائج بیان کیے گئے ہیں، اور اُن نصوص کتاب و سنت سے بالکل نظر ہٹا لی ہے جن میں اعمالِ سیئہ کے نتائج بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ایک مومن کا صحیح مقام بین الخوف والرجاء (اُمید وبیم کے درمیان) ہے۔ جو شخص شارع کے ان دونوںقسم کے ارشادات میں سے صرف ایک ہی پر اپنی نگاہ جما لے گا، وہ لازماً یا تو خوش فہمی یا پھر مایوسی کا شکار ہوجائے گا۔ اسی طرح جو شخص ان دوگونہ نصوص کو آپس میں ٹکرانے اور ان میں تضاد تلاش کرنے کی کوشش کرے گا اُس کے حصے میں بھی گمراہی و حیرانی کے ماسوا کچھ نہیں آئے گا۔

مزیدبرآں اس سلسلے میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی صحیح تاویل معلوم کرنے اور حقیقت ِ نفس الامری تک پہنچنے کے لیے بعض ایسے کلّیات و مسلّمات اور اُصولِ اوّلیہ جو قرآن و حدیث ہی میں مذکور ہیں یا اُن سے ماخوذ ہیں اور جن پر علماے سلف کا اتفاق ہے، وہ بھی نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہییں، مثلاً فرائض کا اجروثواب بہرحال نوافل سے زیادہ ہے۔ فرائض و مکتوبات کی نیابت اور تلافی و تدارک نوافل سے ممکن نہیں ہے، اور ترکِ فرائض کی صورت میں تطوعات عنداللہ قبول نہیں ہوسکتے۔ جو شخص فرض نماز کا تارک ہے، اُس کے نوافل کس کام کے ہیں؟ جو زکوٰۃ یا عشر ادا نہیںکرتا، اُس کے نفلی صدقات و خیرات کیا معنی رکھتے ہیں؟ جو شخص فرض روزے کی طاقت رکھنے کے باوجود اُس کا تارک ہے، اُس کا عاشورہ، ذوالحجہ یا عرفہ کا روزہ سال بھر کے گناہ تو کیا معاف کرائے گا، خود ہی ھیائً منثوراً بن کر ہوا میں اُڑ جائے گا۔جس شخص کو صلوٰۃِ مفروضہ کی ادائی نصیب نہیں ہوتی، اُس کی صلوٰۃ التسبیح دوسرے کبائر و صغائر تو کیا معاف کرائے گی، اُسے ترکِ نماز کے جرمِ کبیرہ سے بھی بری الذّمہ نہیں کرا سکے گی۔ترکِ صلوٰۃ اور ترکِ زکوٰۃ پر دنیا و آخرت میں جو شدید وعیدیں مذکور ہیں، وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نماز کے تارکین کو گھروں سمیت جلا دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ زکوٰۃ نہ دینے والوں کے لیے قرآن و حدیث میں عذابِ جہنم کی وعید ہے اور دنیا میں صحابہ کرام نے اُن کے خلاف مرتدین کی طرح قتال بالسیف کیا ہے۔ کیا اس کے بعد بھی اس امر میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے کہ نفلی عبادات تارکینِ فرائض کے لیے کفّارہ نہیں بن سکتیں اور نوافل و تطوعات کے لیے جو بشارتیں وارد ہیں اُن کے مستحق وہی مسلمان ہیں جو اوامر و فرائض کی پابندی حتی الوسع کرتے ہیں۔ ان ارشادات کا یہ مقصود و مدّعا ہرگز نہ تھا کہ لوگ ان پر بھروسا کرکے فرائض سے تغافل و تساہل برتیں اور منکرات و نواہی کے ارتکاب پر جری ہوجائیں۔ صحابہ کرام جو اِن فرمودات کے اوّلین مخاطب تھے اُن میں ہمیں کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ اُنھوں نے ایسی بشارتیں سُن کر اُن پر غلط تکیہ کیا ہو جس سے اوامر و نواہی کی پابندی میں ڈھیل پیدا ہوئی ہو۔

اعمال کی جزا و سزا کے معاملے میں ایک اُصول کتاب وسنت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ تمام اچھے اور بُرے اعمال کا بحیثیت مجموعی موازنہ و محاسبہ اللہ کے ہاں ہوگا۔ جس کا اچھے اور وزنی اعمال کے لحاظ سے پلڑا بھاری ہوگیا وہ جنت کا مستحق ہوگا، اور جس مسلمان کے اچھے اعمال وزن میں ہلکے ثابت ہوئے وہ دوزخ کا مستحق ہوگا۔ اس کے بعد اللہ چاہے تو ایسے مومن کو معاف کر دے اورچاہے تو معاف کرنے سے پہلے اُسے سزا بھگتنے کے لیے دوزخ میں بھیج دے۔ پھر وہاں اعمال کی ظاہری شکل و صورت کونہیں، بلکہ باطنی جذبے اور نیت کو دیکھا جائے گا۔ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ بعض عبادت گزاروں اورروزے داروں کو سواے رات جاگنے اور بھوک پیاس کے کچھ نہیں ملتا۔ یہاں فرض یا نفل نماز اور روزے کی تخصیص بھی مذکور نہیں جس سے معلوم ہوا کہ بعض موانع ایسے ہیں جن کی موجودگی میں فرض نماز روزہ بھی ردّ ہوسکتا ہے۔ تا بنوافل چہ رسد۔ کوئی شخص عبادات و صدقاتِ نافلہ اگر اس غرض کے لیے انجام دے کہ اُسے فرائض میں چھوٹ اور کبائر کی آزادی   مل جائے، تو ایسے اعمال نہ صرف مردود ہوں گے، بلکہ ایسے زعمِ باطل پر عنداللہ مواخذہ ہوگا۔

اس کے علاوہ کتاب وسنت میں بہت سے ایسے ہلاکت خیز اعمال گنوائے گئے ہیں جو بہت سارے دوسرے اعمال کو بھی ضائع اور خبط کردیتے ہیں۔ ریاکاری کو شرکِ اصغر کہا گیا ہے، جس سے مالی اِنفاق، قتال اور دوسرے اچھے اعمال بے کار ہوجاتے ہیں۔ خیانت و غلول سے جہاد اور شہادت کا اجر مارا جاتا ہے اور اُن کا مرتکب اُلٹا دوزخ میں جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے: ’’قیامت کے روز ایک شخص بہت اچھے اعمال کے ساتھ پیش ہوگا، مگر اُس کے ساتھ اُس نے حقوق العباد کو تلف کیا ہوگا، کسی کا مال چھینا ہوگا، کسی کو گالی دی ہوگی یا دوسری طرح خلقِ خدا کو نشانۂ ستم بنایا ہوگا، تو اُس شخص کی ساری نیکیاں ان مظلوموں میں بانٹ دی جائیں گی اور مظلوموں کی بُرائیاں اُس ظالم کے سر پر لاد کر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا‘‘۔

ایسی بے شمار وعیدات کیوں آپ کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر فرمایا ہے کہ میری شفاعت اہلِ کبائر کے لیے ہے تو اُس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ ہر مرتکب کبیرہ مستحقِ شفاعت ہوگا اور بلامواخذہ بخشا جائے گا؟ اللہ کے ہاں جس کے لیے اذن ہوگا، اُسی کے حق میں شفاعت ہوگی۔ بہت سے اہلِ ایمان کا بھی ایک مرتبہ دوزخ میں داخل کیا جانا احادیثِ صحیحہ میں مذکور ہے۔ اُن لوگوں کے لیے یا تو شفاعت نہ ہوگی یا پھر سزا پانے کے بعد ہوگی۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹی گواہی دینے والا میری شفاعت سے محروم ہوگا۔ بعض مجرمین کے متعلق فرمایا کہ میں اُن کے خلاف مدعی بن کر مخاصمت کروں گا۔ غوروعبرت کا مقام ہے کہ خود آنحضوؐر، شافعِ محشرؐ جس کے خلاف صاحب ِ دعویٰ ہوں گے اُس کا شفیع کون ہوسکتا ہے اور وہ مؤاخذہ سے کیسے بچ سکتا ہے؟

مَیں آخر میں ایک عام فہم تمثیل پر جواب کو ختم کرتا ہوں۔ فرض کیجیے کہ ایک طبیب حاذق اپنے ایک نسخے میں قوت و توانائی کے لیے بعض مفید اور مجرب ادویہ و اجزا کے نام لکھ دیتا ہے۔ پھر اپنی ایک مجلس میں بعض غذائوں کے نفع بخش اثرات اور حفظانِ صحت کے بعض اُصول بیان کرتا ہے اور کسی دوسری مجلس میں بعض زہریلی اشیا اور سمّیات کا بھی ذکر کردیتا ہے کہ اُن کے کھانے سے انسان بیماری یا موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اب یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ پر درست اور برمحل ہیں، لیکن کوئی نادان اگر کرتا یہ ہے کہ مقوّیات کے ساتھ سمّیات کو بھی نوشِ جان کرلیتا ہے اور اس کے بعد تنومند ہونے کے بجاے مرض الموت میں مبتلا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ کہا جائے گا کہ طبیب حاذق نہ تھا یا اُس کی کچھ باتیں صحیح اور کچھ غلط تھیں؟ اس سلسلے میں بہتر ہوگا کہ مولانا مودودیؒ کی کتاب تفہیمات حصہ اوّل کا وہ مضمون بھی پڑھ لیں جس کا عنوان ہے: ’’کیا نجات کے لیے کلمۂ طیبہ کافی ہے؟‘‘

اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات اپنی جگہ پر اٹل اور برحق ہے، مگر مشکل یہ ہے کہ آج مسلمان صرف آسانیوں اور رخصتوں کے طالب اور سستی نجات کے خواہاں بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح اہلِ کتاب کہتے ہیں کہ: سَیُغْفَرُلنا (توقع ہے کہ ہم بخشے جائیں گے) اسی طرح مسلمان بھی یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہر بے عملی، بلکہ بدعملی کے باوجود بلامؤاخذہ سیدھے جنت میں جاداخل ہوں گے، ترکِ اوامر اور ارتکابِ معاصی پر اُن سے پُرسش کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مگر یہ ایک مہلک غلط فہمی بلکہ گمراہی ہے جو اُن کی اپنی کج رَوی اور کج فہمی کی پیداوار ہے۔ اللہ اور اُس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بَری ہوں۔ جو شخص دنیا میں دعواے ایمان کرتا ہے، ہم تو بلاشبہہ اُسے مسلمان کہیں گے کیونکہ یہاں ظاہر احوال ہی پر سارے احکام مرتب ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ جس کا علم ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اُس کے ہاں ہر زبانی دعویٰ تسلیم کیے جانے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ اگرایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ یوںکیوں فرماتا:

وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَo (البقرہ ۲:۸) اور لوگوں میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور یومِ آخرت پر حالانکہ وہ مومن نہیں۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر مسلمان کو کتاب و سنت کے ہر قول کے استماع [غور سے سننے] اور بطریق احسن اتباع کی توفیق بخشے، آمین! (جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص۳۸۰-۳۸۶)